پندرہ مئی 1948ء کادن اہل فلسطین کی زندگیوں میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے تاریخ میں اسے نکبہ Nakba یعنی قیامت کے دن سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ہر سال پندرہ مئی کو فلسطین بھر میں یہ دن بڑے اہتمام اور زور وشور سے منایا جاتا ہے ۔ اس دن اہل فلسطین کی زندگیوں میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے شائید اس لئے کہ اس سے جڑی یادوں سے انہیں اپنے بزرگوں کے لہو کی خوشبو آتی ہے ۔
انبیاء اکرام کی سرزمین پر ہر طرف نا انصافی ، ظلم ، استحصال اور جبر کی حکمرانی ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بستی کے باسی آج دو ہزار سال کے بعد ایک بار پھر اپنی زندگی اور موت ، عزت وغلامی کی ایک اور جنگ لڑ رہے ہیں۔ آگ اور دھوئیں کے اٹھتے بادلوں میں قبلہ اول چھپ سا گیا ہے ۔ لیکن نجانے کیوں مجھے اپنے ٹیکسی ڈرائیور کے وہ الفاظ باربار یاد آتے ہیں جو اس نے ڈیڑھ سال پہلے یروشلم شہر کے باہر ایک اونچی چوٹی پر کھڑے ہو کر دیار یسین کے اجڑے گاؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئےکہے تھے ”ڈاکٹر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹوٹ جائیں گےہم ہار جائیں گے۔ اور وہ ہمارے وطن پر قابض ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوگا اس وقت تک ایسا نہیں ہوگا جب تک ہمارے جسموں میں خون کی ایک بوند بھی باقی ہے ۔ ہمارے جسموں پر ایک بھی سر سلامت ہے ۔ جب تم فلسطین میں سفر کرو گے تو تمہیں ہر فلسطینی شہر کے داخلی دروازے پر لگی چابی پر یہ جملہ لکھا نظر آئے گا حتماً سنعود - ہم یقیناً واپس آئیں گے.“
ہم باب لُد دیکھ کر لُد شہر سے باہر نکلے تو رات کے ساڑھے دس بج رہے تھے چاند کی چاندنی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی پورن ماشی کی سنہری روشنی رات کی سیاہ تیرگی کا دامن پوری طرح چاک کرنے میں ناکافی تھی ، اس لئے ملگجا سا اندھیرا ہر سو چھایا ہوا تھا. ٹیکسی بیبرس کے پل پر سے گذرتی ہوئی لُد شہر سے باہر آئی اور پھر ایک چکر کاٹ کر لُد انٹرچینج سے ہائی وے ون پر آگئی جو تل ابیب اور یروشلم کے درمیان مرکزی موٹر وے ہے . یہ موٹر وے ویسٹ بنک کے درمیان سے گذرتی ہے اور تل ابیب کو یروشلم سے ملاتی ہوئی جیریکو ، بحیرہ مردار اور وادی اردن کی طرف نکل جاتی ہے اور کئی جگہ پر اس کے دونوں طرف بہت اونچی اونچی دیواریں بنائی گئی ہیں جو اسے ویسٹ بنک سے جدا کرتی ہیں ۔ ان اونچی دیواروں کے پیچھے بنی جیل میں رہنے والے ویسٹ بنک کے بد نصیبوں کو اول تو اس ہائی وے پر سفر کی اجازت ہی نہیں ملتی اور اگر کسی کو اس پر سفر کرنے کا پرمٹ مل جائے تو بھی اسے ان چیک پوسٹوں پر کڑی تفشیش کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ہر انٹرچینج پر خاص ان کے لئے بنائی گئی ہیں. ابو قاسم کی کمنٹری مسلسل جاری تھی وہ شخص فلسطین کی تاریخ پر ایک چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھا اب وہ ہمیں ” نکبہ “ کے بارے میں بتا رہا تھا کہ کیسے 1948ء میں اسرائیل کی مسلح تنظیموں ہگانہ ، لہی اور ارگون نے اسلحہ اور طاقت کے زور پر فلسطنیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر دربدر کردیا تھا. اس نے دائیں جانب سڑک کے کنارے ایک چوٹی پر استادہ کچھ کھنڈرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوبا ہے وہ گاؤں جسے 1948ء میں جلا کر راکھ کر دیا گیا تھا اور اس کے فلسطینی باشندوں کو در بدر کر دیا گیا تھا. ہم نے اپنی دائیں جانب موجود اس چھوٹی سی پہاڑی چوٹی کی طرف دیکھا جہاں کئی عمارتوں کے کھنڈرات چاند کی روشنی میں ملگجے اندھیرے اور دھند میں لپٹے دور سے کسی بھوت بنگلے کی طرح نظر آرہے تھے.یہ ان چھ سو گاؤں میں سے ایک ہے جو آج بھی آپ کو اسرائیل کے طول و عرض میں بکھرے نظر آتے ہیں . ان میں سے کچھ گاؤں کو ملیا میٹ کر کے ان پر نئے شہر بسائے گئے ہیں اور کچھ آج بھی سوبا کی طرح کھنڈرات کی صورت میں یہودیوں کی شق القلبی ، دنیا کی بے حسی اور فلسطنیوں کی بے بسی و بے چارگی کی ان کہی کہانیاں سناتے نظر آتے ہیں .
چودہ مئی کو اسرائیل بنا اور پندرہ مئی کو فلسطینیوں پر قیامت ٹوٹ پڑی. ایک انتہائی منظم سازش کے تحت پورے فلسطین میں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے زبردستی نکال دیا گیا . ان کے گھر اور ان کی زمینیں چھین لی گئیں . لاکھوں بے گھر ہوئے اور ہزاروں بے گناہ قتل ہوئے . اس نسل کشی اور قتل عام کو تاریخ میں
نکبہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے . نکبہ کے معنی تباہی ، بربادی ، قیامت ، اور مصیبت کے ہیں. اس قیامت صغریٰ کے دوران اسی فی صد سے زیادہ فلسطینی بے گھر ہوئے اور ہزاروں فلسطینی عرب ہونے کے جرم میں اپنی جان سے گئے۔ چار لاکھ سے زائد فلسطینی اردن شام ، لبنان اور دوسرے ہمسایہ ممالک میں پنا ہ لینے پر مجبور ہوئے چھ سو کے قریب فلسطینی گاؤں اور شہر اجاڑ دئیے گئے گھروں کو بلڈوز کر دیا گیا. ان کے کنوؤں میں زہر ملا دیا گیا زمینوں کو آگ لگا دی گئی تاکہ وہ واپس نہ لوٹ سکیں فلسطنیوں کی اس نسل کشی پر آج بھی پندرہ مئی کو پورے فلسطین میں یوم نکبہ منایا جاتا ہے اور یہ سب ” پلان ڈالٹ “ کے تحت کیا گیا جس کی منصوبہ بندی بن گوریان نے کی تھی. فلسطنیوں کی یہ نسل کشی 1948ء میں پہلی عرب اسرائیل جنگ کی وجہ بنی .
الان پاپے Ilan Pappé ایک اسرائیلی یہودی ہے وہ اسرائیلی پارلیمنٹ کا ممبر رہا اور اس حیثیت سے اسے اسرائیل کے ان خفیہ دستاویزات تک رسائی حاصل تھی جو1948 ء میں ہونے والی اس منصوبہ بندی کے بارے میں تھے جو نکبہ کا پیش خیمہ بنی . وہ آج کل برطانیہ کی یونیورسٹی آف اکسرٹر University of Exerter میں سوشل سائنسز اور انٹرنیشنل سڈییز کا پروفیسر اور ڈائیریکٹر ہے. اس نے 1980 ء میں حکومت برطانیہ کی ڈی کلاسی فائی کی جانے والی خفیہ دستاویزات اور اسرائیلی خفیہ دستاویزات کے مطالعے اور ریسرچ کے بعد کئی کتب لکھی ہیں .
1- The Ethnic cleansing of Palestine (2006)
2- The Modern Middle East (2005)
3- A History of Modern Palestine
One Land 2 people
4- Britain and the Arab - Isralai Conflict (1988)
اس کی ان کتب میں سے ایک کتاب The Ethnic cleansing of Palestine میں نے حمزہ کے پاس دیکھی اور مجھے یہ کتاب پڑھنے کا اتفاق ہوا . اس کتاب میں 1948ء میں نکبہ کے دوران فلسطنیوں کی ہونے والی نسل کشی کے بارے میں ہوش ربا اور انتہائی خوفناک انکشافات کئے گئے ہیں . الان لکھتا ہے کہ 1948ء میں اسرائیل کی اعلان آزادی کے وقت فلسطین میں نو لاکھ فلسطینی عرب تھے، جن میں سے سات لاکھ بیس ہزار فلسطنیوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور ان کو بے گھر کرنا زائیونسٹ تحریک کے Zionist Movement بنیادی اہداف میں سے ایک تھا ، تاکہ اسرائیل کو بنانے سے سے پہلے یہاں آبادی کا تناسب یہودیوں کے حق میں بدلا جا سکے اور فلسطنیوں کی نسل کشی ایک انتہائی منظم اور طے شدہ پروگرام کے تحت کی گئی جس کے ماسٹر مائینڈ بن گوریان اور اس کی دس رکنی مشاورتی کمیٹی تھی . اس نسل کشی کے لئے ہگانہ کے مسلح افراد کو استعمال کیا گیا لہی اور ارگان کی دہشت گر دانہ کاروائیوں کے ذریعے نہتے شہریوں کا قتل عام ہوا اور انہیں خوفزدہ کر کے انہیں اپنے گھر بار اور شہر گاؤں چھوڑنے پر مجبور کیا گیا.
ایک اور جگہ وہ لکھتا ہے کہ ارگان اور لہی نہ صرف نہتے شہریوں کے خلاف دہشت گر دانہ کاروائیوں میں ملوث تھیں بلکہ انہوں نے ایک منظم سازش کے تحت فلسطین میں برطانوی گورنمنٹ کے خلاف بھی دہشت گردی کی برطانوی فوجیوں کو گھات لگا کر قتل کیا سرکاری عمارتوں میں بم کے دھماکے کئے تاکہ برطانوی حکومت کو مجبوراً فلسطین یہودیوں کے حوالے کر کے واپس جانا پڑے کنگ ڈیوڈ ہوٹل یروشلم میں فلسطین کی برطانوی حکومت کا ہیڈ کوارٹر قائم تھا 1926 ء کو اس میں ہونے والا بم دھماکہ کفن کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا اور حکومت برطانیہ نے فلسطین کی سرزمین کا نظم ونسق یہودیوں کے حوالے کر کے فلسطین چھوڑنے کا ارادہ کر لیا.“ ایک جگہ الان لکھتا ہے کہ 1892ء میں ہونے والی صہیونی کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ فلسطین کو “ تبدیل “ کر دیا جائے اور اس کے لئے ہر طرح کے ذرائع اور طریقے استعمال کئے جائیں تاکہ یہودی اکثریت میں آجائیں اور فلسطینی عرب اقلیت میں تبدیل ہو جائیں. اس مقصد کے لئے ساری دنیا کے یہودیوں میں مقدس سرزمین کی طرف ہجرت کرنے کی مہم چلائی گئی فلسطینی عربوں کی زمینیں منہ مانگے داموں خرید کر وہاں یہودیوں کو لا کر بسایا گیا. اور یہ مہم اتنی کامیاب تھی کہ 1935ء سے پہلے یہودیوں کی تعداد جو پنتیس ہزار تھی اب 1935 ء میں بڑھ کر ساڑھے تین لاکھ تک پہنچ چکی تھی ۔1910ء میں یہی تعداد
پانچ ہزار کے قریب تھی . ان نوآباد یہودیوں کو ییشوا کہا جاتا تھا . - ان کی حفاظت کے لئے ایک مسلح تنظیم بنائی گئی جسے ہر طرح کے جدید اسلحے سے لیس کیا گیا.
بن گوریان اور اس کے ساتھیوں نے 1904ء میں ہی سارے فلسطین کا دورہ کر کے سیاسی معاشی اور فوجی اعتبار سے اہم فلسطینی علاقوں کو انتخاب کر لیا تھا جنہیں یہودی تسلط میں لانا ان کی اولین ترجیح تھی انہوں نے پورے فلسطین کا انتہائی تفصیلی نقشہ تیار کیا تھا جس میں فلسطینی عربوں کی تعداد اور ان کے علاقوں کے بارے میں ہر طرح کی مکمل تفصیل درج تھی ۔1920 ء میں وہ یہودی جو پہلی جنگ عظیم میں شریک ہوئے تھے ان کو ہگانہ کے نام سے منظم کیا گیا اور اسے ایک باقاعدہ سول آرمی کی شکل دی گئی. 1925 ء میں ایک خاص منصوبے کے تحت ہگانہ کے بہترین اور ذہنی طور پر مضبوط افراد کو منتخب کر کے لہی اور ارگان جیسی دہشت گرد زیر زمین تنظمیں بنائی گئیں تاکہ جہاں گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے وہاں ان تنظیموں کے ذریعے اپنے احداف حاصل کئے جا سکیں۔ الآن پاپے نے اپنی کتاب میں اسرائیل کے خواب کو تعبیر دینے کے لئے بنائے جانے والے ایک منصوبے کا ذکر کیا ہے جس کی کامیابی کے لئے اس کو چار مرحلوں میں پورا کیا جانا تھا . یہ منصوبہ 1892ء میں ہونے والی یہودیوں کی عالمی کانفرنس میں تیار کیا گیا تھا جس کا مقصد ان پر مرحلہ وار عمل کر کے بتدریج اسرائیل کا قیام ممکن بنانا تھا
1- پلان اے Plan Aleph
یہ 1945ء میں منظر عام پر آیا اس کے مطابق آزاد اسرائیل کے قیام کااعلان کرنا اور اس کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو دور کرنا تھا
( Plan Bet ) پلان بی
یہ 1945ء میں بنااور1947ء میں منظر عام پر آیا اس کے مطابق برطانوی حکومت کے ذریعے اقوام متحدہ سے اسرائیل کو منظور کروانا اور اس کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں سے نبرد آزما ہونا تھا
پلان سی ۔ (Plan Gimel)
یہ 1926ء میں بنا اور دسمبر 1947 ء میں اقوام متحدہ سے اسرائیل کے حق میں قرارداد منظور ہونے کے بعد منظر عام پر آیا. اس پلان کے تحت ہاگانہ اور دیگر مسلح یہودی ملشیا اور گروپوں کو منظم کرنا اور بہترین اسلحہ اور تربیت سے لیس کرنا تھا
( Plan Dalet)پلان ڈی لٹ یہ زائیونسٹ تحریک Zionist Movement
کا سب سے اہم مرحلہ تھا جس کے تحت فلسطینی عربوں کو ہر ممکن جائز اور ناجائز طریقے سے ان کے آبائی گھروں اور زمینوں سے بے دخل کر کے ان کی جگہ یہودیوں کو آباد کرنا تھا . پلان ڈی لٹ 1940ء میں بنا اور 1948ء میں عمل میں لایا گیا. Aleph, Bet , Gimel and Dalet عبرانی زبان کے پہلے چار حروف تہجی ہیں. اسرائیل بننے کے بعد پلان ڈالٹ کو حقیقت کا روپ دینے والی ہگانہ اسرائیل کے آرمی بن گئی اور لہی اور ارگون سے موساد کی بنیاد پڑی . یہ امر انتہائی شرم ناک اور اہمیت کا حامل ہے کہ پچھلے پچھتر سالوں میں بیس سے زیادہ اسرائیلی وزیر اعظم اور صدور ایسے بنے جن کا تعلق لہی اور ارگون سے تھا اور سوسے زیادہ ایسے افراد اسرائیلی کابینہ کے رکن بن چکے ہیں جن کا خمیر ان دہشت گرد تنظیموں سے اٹھا تھا۔
ابو قاسم کی نان سٹاپ کمنٹری جاری تھی اور ہم پورے انہماک کے ساتھ اس کی ان بیش قیمت معلومات سے مستفید ہو رہے تھے کہ ٹیکسی یروشلم کے نواح میں داخل ہوئی. اس نے اچانک ٹیکسی روک دی اور ہم سے باہر آنے کی درخواست کی. وہ ہمیں سڑک کے کنارے ایک اونچی جگہ پر لے گیا جہاں سے روشنیوں میں نہائے یروشلم شہر کا بہت خوبصورت منظر نظر آتا تھا.فضا میں خوشگوار سی خنکی تھی ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی . چودھویں کا چاند اپنی پوری آب وتاب سے جگمگا رہاتھا ہر سو ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی پھیلی ہوئی تھی. یروشلم شہر کا یہ پہلا نظارہ جیسے آنکھوں کے رستے میری روح میں اتر گیا . انبیاء کی سرزمین حضرت ابراہیم کا وطن مسلمانوں کا قبلہ اوّل . کیا کچھ نہیں تھا اس شہر میں، مجھے لگا جیسے میں عرصے سے اس شہر کو جانتا ہوں . میرا اس شہر سے کوئی بہت پرانا رشتہ ہے. دور شہر کی چھوٹی بڑی روشنیوں کے درمیان ایک سنہری گنبد چمکتا نظر آرہا تھا. یہ قبتہ الصخرہ کا گنبد تھا. اس گنبد سے ٹپکنے والی روشنی سب سے جدا تھی سب سے مختلف یوں لگا جیسے اس گنبد سے نور کی بارش ہو رہی ہے . چرخ نیلی فام پر جگمگ کرتے لاکھوں ستارے ، چودھویں کے چاند کی ٹھنڈی چاندنی ،دور تک پھیلے یروشلم شہر کی روشنیاں اور قبتہ الصخرا کے سنہری گنبد سے پھوٹتا نور ، یہ منظر سحر انگیز ہی نہیں فسوں خیز بھی تھا ،کسی طلسم ہوشربا کی طرح ، جی چاہتا تھا کہ بس کھڑے اسے دیکھتے رہیں۔
لیکن ابو قاسم نے اس وقت اس رنگ میں بھنگ ڈال دی جب اس نے شہر کے بیچوں بیچ بنی ایک بلند وبالا بہت بڑی عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ عمارت کنگ ڈیوڈ ہوٹل کی ہے جہاں فلسطین کی برطانوی حکومت Mandatory British Palestine کا ہیڈ کوارٹر قائم تھا اور اسے 1946ء میں صہیونی دہشت گرد تنظیم ارگان نے بم سے اڑا دیا تھا جس میں نوے سے زیادہ لوگ جاں بحق ہوئے اور اس حادثے کے بعد برطانوی حکومت نے فلسطین چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا. پھر وہ سڑک کے نیچے بنی عمارات کے ایک سلسلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا اس جگہ کبھی ایک فلسطینی گاؤں دیر یاسین آباد تھا. اپریل9 اپریل 1948 ء کو صہیونی دہشت گرد تنظیم لہی اور ہگانہ نے رات کے وقت اس پر حملہ کر دیا اور اس گاؤں میں رہنے والے چھ سو باشندوں کو گھروں میں بند کر کے آگ لگا دی اس حادثے میں اڑھائی سو کے قریب لوگ شہید ہوئے جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے - بعد میں اس گاؤں کو بلڈوز کرکے ملیا میٹ کر دیا گیا . آج کل دیر یسٰین کے جلے ہوئے کھنڈرات پر ایک مینٹل ہیلتھ ہسپتال قائم ہے جس کا نام کفر شال مینٹل ہسپتال Kfar Shaul Mental Health Center ہے.
انٹرنیشنل ریڈ کراس کے نمائندے جیکس ڈی رینیئر کی ایک گنتی کے مطابق ، گلیوں میں پڑی لاشوں کے علاوہ ، صرف 150 افراد کی لاشیں ایک ہی حوض میں پائی گئیں اور اکثر افراد کی لاشیں ان گھروں سے برآمد ہوئیں جن کے دروازے باہر سے تالے لگاکر بند کر دئیے گئے تھے تاکہ وہ جان بچانے کے لئے باہر نہ نکل سکیں ۔
اسرائیلی مورخ بینی مورس نے لکھا ہے کہ بہیمانہ قتل وغارت کے ساتھ عصمت دری کے معاملات بھی سامنے آئے۔
الان پاپے نے اپنی کتاب میں لکھا ہے
Contemporary accounts put the number of victims of the Deir Yassin massacre at 254, a figure endorsed at the time by the Jewish Agency, a Red Cross official, The New York Times, and Dr Hussein al-Khalidi, spokesperson for the Jerusalem-based Arab Higher Committee. It is likely this figure was deliberately inflated in order to sow fear among the Palestinians and thereby panic them into a mass exodus
متھیو ہوگن Matthew Hogan نے لکھاکہ About two-thirds of those killed were women, children, and men over 60"
لیوی نے بیان کیا ہے کہ
LHI members tell of the barbaric behavior of the IZL toward the prisoners and the dead. They also relate that the IZL men raped a number of Arab girls and murdered them afterward (we don't know if this is true)"
برطانوی فلسطین فورس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل رچرڈ کیٹلنگ Richard Catling نے بعد میں تیرہ اور پندرہ اپریل کے دوران اپنی تفشیش میں چالیس سے زیادہ عورتوں اور بچیوں کے انٹرویوز کئے جن کی عصمت دری کی گئی تھی ۔ ڈیوڈ شیلتیل David Shaltiel یہودی دہشت گرد تنظیم ہگانہ کاکمانڈر تھا جس نے دیر یسٰین کے چھ سو بے بس باسیوں کو گھروں میں بند کر کے گاؤں کو آگ لگا دی تھی ۔ اسے آج بھی اسرائیل میں ہیرو کا درجہ حاصل ہے ۔ 1949ء میں اسے فرانس میں ملٹری اتاشی بنا دیا گیا اور بعد میں یہ ، برازیل ، نیدرلینڈ ، میکسیکو ، وینزویلا اور کیوبا میں اسرائیل کا سفیر رہا. دیر یسین کے واقعے کی بازگشت پوری دنیا میں سنی گئی ۔ 10اپریل 1948ء کو البرٹ آئین سٹائین نے امریکن فرینڈز آف فائیٹرز فار دی فریڈم آف اسرائیل کو خط لکھ کر ان کی امداد اور حمایت کرنے سے انکار کیا تھا. یہ تنظیم لہی کا امریکن چپٹر تھی . ابو قاسم دیر یسٰین کی روداد سناتے ہوئے بڑا دکھی نظر آیا. اس نے اپنے ہاتھ کی الٹی سمت سے اپنی آنکھوں کے گوشے صاف کئے لیکن وہ اپنے آنسوؤں کو چھپانے میں کامیاب نہ ہوسکا ۔ چھلکتی آنکھوں اور رندھی آواز میں بولا۔ ڈاکٹر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹوٹ جائیں گےہم ہار جائیں گے۔ اور وہ ہمارے وطن پر قابض ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوگا اس وقت تک ایسا نہیں ہوگا جب تک ہمارے جسم میں خون کی ایک بوند بھی باقی ہے ہمارے جسموں پر ایک بھی سر سلامت ہے ۔ جب تم فلسطین میں سفر کرو گے تو تمہیں ہر فلسطینی شہر کے داخلی دروازے پر لگی چابی پر یہ جملہ لکھا نظر آئے گا کہ حتماً سنعود ۔ ہم یقیناً واپس آئیں گے .
میں گنگ کھڑا رہا ۔ مجھے لگا میری قوت گویائی جواب دے گئی ہے ۔ نجانے کیوں میں اس کی ڈبڈبائی آنکھوں کا سامنا نہ کر سکا مجھے لگا جیسے میں بھی اس کا مجرم ہوں اور اس کی شاکی نظروں سے منہ پھیر کراس ہسپتال کو دیکھنے لگا جہاں کبھی دیر یسین تھا۔ پھرپتہ نہیں کس وقت وہ مجھے اکیلا وہیں چھوڑکر نیچے اتر گیا ۔ اور میں جانے کتنی دیر تک کھوئی کھوئی آنکھوں کے ساتھ عمارتوں کے اس سلسلے کو دیکھتا رہا. میرے کانوں میں عورتوں اور بچوں کے چیخنے چلانے اور رونے دھونے کی آوازیں گونج رہی تھیں آنکھوں کے سامنے ان کے گھروں سے اٹھتے شعلے رقص کر رہے تھے. دیر ہوگئی تو مجھے بلال کی آواز سنائی دی جو نیچے ابو قاسم کے ساتھ ٹیکسی کے قریب کھڑا جانے کب سے مجھے پکار رہا تھا. دُکھی اور افسردہ دل کے ساتھ میں نے اس ہسپتال پر ایک آخری نظر ڈالی جس کی بنیادیں دیر یسین کے بے گناہ فلسطینیوں کی جلی ہوئی لاشوں پر قائم تھیں ۔ اور بھاری قدموں سے ٹیکسی کی طرف چل دیا۔
ٹیکسی میں بیٹھنے سے پہلے میں نے ابو قاسم سے وہ سوال پوچھ ہی لیا جو بڑی دیر سے میرے ذہن میں کلبلا رہا تھا
کیا تم ہر مسافر سے ایسے ہی باتیں کرتے ہو جیسے تم نے ہم سے کی ہیں؟
وہ ہنس پڑا لیکن اس کی ہنسی کے پیچھے چھپا غلامی کا درد اور بے بسی صاف نظر آرہی تھی.
کہاں صاحب اگر میں ہر مسافر سے یہ باتیں کرتا جو آپ سے کی ہیں تو میرا ٹیکسی کا لائسینس کب کا کینسل ہو گیا ہوتا اور میں کسی جیل میں پڑا ہوتا.
اس نے ٹیکسی سٹارٹ کر کے آگے بڑھا دی اور بڑے دکھ بھرے لہجے میں بولا: ڈاکٹر تم بھلے آدمی لگتے ہو تمہارے دل میں مسلم اُمّہ کا درد ہے اور تم فلسطنیوں اور مسلمانوں کی تاریخ سے بھی بخوبی روشناس محسوس ہوتے ہو تم جیسا مسافر مہینوں بعد ملتا ہے جس سے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کو جی چاہتا ہے، اور پھر تم نے بتایا تھا کہ واپس جا کر تم اپنا سفر نامہ لکھنے کا ارادہ رکھتے ہو تو اس لئے تم سے یہ سب کہہ ڈالا جو ہم اپنے سائے سے بھی کہتے ہوئے ڈرتے ہیں .میری یہ ساری باتیں تمہارے پاس میری اور میری قوم کی امانت ہیں وعدہ کرو کہ انہیں من وعن ایسے ہی لکھو گے جیسے تمہیں بتائی ہیں یہ صرف میرا اور قوم کا ہی نہیں ہماری آنے والی نسلوں کا بھی دکھ ہے جس سے دنیا کو آگاہ کرنا بڑا ضروری ہے . اگر تم جیسے لوگ یہاں آتے رہیں گے تو امید ہے شائد ہماری حالت زار پر دنیا کو ایک دن رحم آجائے.
میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے یقین دلایا کہ میں اس کی یہ امانت ضرور دوسروں تک پہنچاؤں گا . باقی سارے راستے میں ابو قاسم خاموش رہا شائد اس کے پاس اب کہنے کو کچھ نہ بچا تھا. یا پھر وہ بھی ہماری طرح دیر یاسین کے ان بے بس اور لاچار باسیوں کی بے بسی اور بے چارگی یاد کر کے اداس ہو گیا تھا جنہیں ان کے ناکردہ گناہوں کے عوض ان کے اپنے گھروں میں زندہ جلا دیا گیا تھا. اداسی اور تکلیف کے آثار اس کے چہرے سے نمایاں تھے . جب اس نے ہمیں گولڈن وال ہوٹل کے باہر اتارا ہمارا سامان اٹھا کر اندر ہال میں پہنچایا اور میں نے اسے سو شیکل طے شدہ کرائے سے زیادہ ادا کئے تو بھی وہ کچھ نہ بولا اور بس شکراًُ کہہ کر رخصت ہو گیا اور میں اس کا شکریہ ادا کرنے کے لئے الفاظ ہی ڈھونڈتا رہ گیا-
تبصرہ لکھیے