لاہور اسلام آباد موٹروے 1997ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ اس کے تعمیر ہونے کی خبر آتے ہی میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ موٹروے پر خود اپنی گاڑی چلاؤں۔
ابھی اس کے افتتاح میں چند دن باقی تھے، لیکن میں چونکہ اس وقت ایک معروف اخبار کا ملازم تھا اور میرے پاس پریس کارڈ ہوتا تھا، اس لئے امید تھی کہ مجھے موٹروے پر گاڑی چلانے کی اجازت مل جائے گی۔ چنانچہ میں نے فیملی کو ساتھ لیا اور کراچی سےڈرائیو کر کے پہلے لاہور اور پھر اسلام آباد پہنچ گیا۔ موٹروے کی تعمیر ابھی جاری تھی۔
افتتاح اگلے مہینے تھا۔ کوریا کی Daewoo کمپنی تیزی سے کام کو تکمیل تک پہنچانے میں مصروف تھی۔ اس کے زیادہ تر سیکشن تو مکمل ہو چکے تھے، البتہ کہیں کہیں کچھ پلوں کی تکمیل نہ ہونے کی وجہ سے رکاوٹیں تھیں۔ اسی وجہ سے ابھی اس پر سفر بھی ممنوع تھا۔ لیکن لوگ پھر بھی اس پر گاڑی چلانے کی کوشش کرتے تھے۔
اکتوبر کی ایک خنک صبح دس بجے میں راولپنڈی سے روانہ ہوا اور چکری روڈ پر ڈرائیو کرتا ہوا چکری انٹرچینج سے موٹروے پر چڑھ گیا۔ موٹروے کی تو دنیا ہی اور تھی۔ کہاں پاکستان کی دیگر غریبانہ سڑکیں جہاں قدم قدم پر طرح طرح کی رکاوٹیں، اورکہاں یہ خاموش اور پرسکون وی آئی پی روڈ، جہاں دور دور تک نہ کوئی سگنل نہ یوٹرن، نہ کوئی بس اسٹاپ نہ ٹریکٹر ٹرالیاں … آپ جتنی اسپیڈ بڑھانا چاہیں بڑھا لیں، گاڑی پرسکون چلتی رہے گی۔
جہاں جہاں کوئی پل مکمل نہیں تھا، وہاں گاڑیاں سڑک سے نیچے کچے میں اتر جاتیں اور چند سو میٹر آگے جاکر پھر موٹر وے پر چڑھ جاتیں۔ ایک دو جگہ ڈائیوو کمپنی کے اہلکاروں نے مجھے مزید آگے جانے سے روکنے کی بھی کوشش کی، لیکن میرے پریس کارڈ دکھانے پر آگے جانے کی اجازت مل گئی۔
موٹروے گاڑی کو تیز دوڑانے کیلئے آئیڈیل ہے، لیکن اُس دن خدا جانے میری گاڑی میں کیا خرابی پیدا ہوئی کہ میں جتنا چاہے ایکسیلریٹر دباؤں، اسپیڈ پچاس پچپن سے زیادہ بڑھنے کا نام نہیں لیتی تھی۔ خاصی پریشانی بھی ہوئی، لیکن اس سڑک پر تو دور دور تک کوئی میکینک بھی نہیں تھا جسے میں گاڑی دکھاتا۔ چنانچہ اسی رفتار پر اکتفاء کئے چلتا رہا۔ رفتار کم ہونے کی وجہ سے وقت بھی زیادہ لگ رہا تھا اور خدشہ تھا کہ شام پانچ چھ بجے سے پہلے لاہور نہیں پہنچ پاؤں گا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد آنے والی رکاوٹیں رہی سہی رفتار کو مزید توڑ دیتیں اور وقت بھی مزید ضائع ہو جاتا۔
پوٹھو ہار اور سالٹ رینج کے علاقوں میں راستہ اونچا نیچا اور پہاڑی ہے۔ سالٹ رینج کے اختتام پر موٹروے کلر کہار کی خوبصورت جھیل کے بالکل کنارے پر آجاتی ہے۔ کلر کہار سے تقریباً نصف گھنٹہ مزید آگے چلیں تو سالٹ رینج کا اختتام ہو جاتا ہے اور موٹروے ایک طویل ڈھلوان پر اترتی ہوئی پنجاب کے میدانوں میں داخل ہو جاتی ہے۔ اب سڑک بالکل ہموار اور تیر کی طرح سیدھی ہو جاتی ہے اور راستہ تیزی سے طے ہونے لگتا ہے۔ لیکن میری گاڑی نے تو شاید تیز نہ چلنے کی قسم کھا لی تھی۔ سست رفتاری سے سفر کرتے کرتے شام ہو گئی۔
اس وقت تک موٹروے پر سفری ہدایات اور فاصلوں کی نشاندہی کے بورڈ بھی نہیں لگے تھے، اس لئے اندازہ بھی نہیں ہو رہا تھا کہ ہم کہاں تک پہنچے ہیں، کتنا فاصلہ طے کر چکے ہیں اور کتنا باقی ہے؟
اب تو سورج بھی غروب ہونے والا تھا۔ مجھ پر گھبراہٹ طاری ہونے لگی، کیونکہ اندھیرے میں اس نامکمل سڑک پر سفر کرنا خطرناک بھی ثابت ہو سکتا تھا۔ میں تو چاہتا تھا کہ بقیہ راستہ بھی جلد از جلد طے کرلوں، لیکن گاڑی کی سست رفتاری نے مجبور کر دیا تھا۔اسی پریشانی میں تھا کہ اچانک پھر سڑک ختم ہونے کے آثار نظر آئے۔ میں نے رفتار کم کر دی۔ یہاں آگے ڈائیوو کمپنی کا بیریئر لگا ہوا تھا اور چند اہلکار بھی کھڑے تھے۔ ایک نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا۔ میں نے بریک لگا دی۔
”آپ کہاں جا رہے ہیں سر؟“ اس نے قریب آ کر پوچھا۔
”جی لاہور“ میں نے جواب دیا اور خالی خالی نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔
”آپ کو معلوم ہے ابھی موٹروے پر سفر کی اجازت نہیں؟ … آپ آگے نہیں جاسکتے“ وہ خشک لہجے میں بولا۔
میں نے اپنا پریس کارڈ نکال کر اس کے ہاتھ میں دیا، جو اس نے ایک نظر دیکھ کر مجھے واپس کر دیا۔
”ٹھیک ہے سر، آپ پریس کے آدمی ہیں، لیکن کیا آپ کے پاس ڈائیوو کمپنی کا جاری کیا ہوا اجازت نامہ ہے؟“ اس نے پوچھا۔
”نہیں … وہ تو میرے پاس نہیں“ میں کچھ پریشان ہوا۔
”لیکن میں اسلام آباد سے اسی روڈ پر آ رہا ہوں، ابھی تک تو مجھے کسی نے نہیں روکا“
”جی انہوں نے غلطی کی ہے۔ سڑک مکمل نہیں ہے۔ اس پر سفر کرنا خطرناک ہے۔ ہم ڈائیوو کمپنی پاس کے بغیر آپ کو آگے جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔“
اس نے حتمی انداز میں کہا اور میں جو ویسے ہی رفتار میں کمی اور سورج کے ڈھل جانے سے پریشان تھا، مزید متوحش ہوا اور بے چارگی سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔
”آپ فوراً موٹروے سے نیچے اتر جائیں، نیچے ایک سڑک ہے جو آپ کو قریبی آبادی تک لے جائے گی، وہاں آپ کو لاہور جانے والی روڈ مل جائے گی“
اس نے کچے میں جانے والے ایک غیر ہموار رستے کی طرف اشارہ کیا، جو موٹروے کی دائیں جانب ویرانے میں اتر رہا تھا۔
ابھی اس کی بات جاری ہی تھی کہ اچانک پیچھے سے ایک لمبی کار آئی۔ وہ بھی رکاوٹ کی وجہ سے میری گاڑی کے برابر میں آ کر کھڑی ہو گئی۔ ڈائیوو کمپنی کا اہلکار مجھے چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔ میں اس امید پر وہیں کھڑا رہا کہ اب چونکہ موٹروے پر مزید آگے سفر کا ایک اور امیدوار بھی سامنے آگیا ہے، اس لئے اگر اسے اجازت مل گئی تو میں بھی جا سکوں گا، کیونکہ وہ دیکھنے میں کوئی صاحبِ حیثیت آدمی لگ رہا تھا۔ اس کے ساتھ ایک بیوی نما خاتون بھی تھی۔ اہلکار نے اس سے بھی اجازت نامہ طلب کیا اور نہ ہونے کے باعث اسے بھی آگے جانے سے روک دیا۔ اس پر وہ شخص جارحانہ انداز میں گاڑی سے اترا اور بحث کرنے لگا۔
”اوئے تجھے پتہ ہے میں کون ہوں؟“ وہ غصے سے بولا۔
”سر آپ جو بھی ہیں، میں پاس کے بغیر آپ کو آگے جانے کی اجازت نہیں دے سکتا“ اہلکار نے انکار کرتے ہوئے فیصلہ کن لہجے میں جواب دیا۔
اس پر نووارد مشتعل ہوگیا۔
”اوئے تو ہے کون مجھے روکنے والا؟ … بکواس کرتا ہے؟“ وہ غصے سے دہاڑا۔
”زبان سنبھال کر بات کرو مسٹر، بکواس تم خود کر رہے ہو“ اہلکار بھی بپھر گیا۔
اس کا یہ کہنا تھا کہ نووارد غصے میں اسے مارنے کیلئے آگے بڑھا اور آناً فاناً دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔ نووارد کی بیوی کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں اور وہ چیخنے لگی۔ قریب کھڑے ہوئے دوسرے اہلکار تیزی سے ان دونوں کی طرف لپکے۔ میں نے جو یہ تماشا دیکھا تو فوراً گاڑی ریورس کی اور بڑی شرافت کے ساتھ موٹروے سے نیچے اتر گیا۔
کہاں موٹروے اور کہاں یہ پگڈنڈی … مجھے یوں لگا جیسے :
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
سورج چند منٹ میں غروب ہونے والا تھا۔ ٹوٹے پھوٹے رستے پر میری گاڑی لڑکھڑاتی ہوئی آگے بڑھنے لگی۔ تھوڑا ہی آگے چلے ہوں گے کہ سڑک کے قریب جھاڑیوں میں ایک بوڑھا چرواہا لمبی سی لاٹھی لئے اپنی چند بھینسیں ہنکاتا نظر آیا۔ میں نے گاڑی روک کر اسے آواز دی تو وہ قریب آ گیا۔
”السلام علیکم بابا جی“ میں نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے اسے سلام کیا۔
”وعلیکم سلام پتر“ اس نے شفقت سے جواب دیا۔
”بابا جی یہ رستہ کدھر جا رہا ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”پتر اے رستہ ’خانقاہ ڈوگراں‘ جاندا اے“ وہ خوشدلی سے بولا۔
”خانقاہ ڈوگراں کتنی دور ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”اے بس نال ای اے پتر … دس پندراں منٹ دا رستہ اے“
میں نے بابا جی کا شکریہ ادا کیا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔
دس منٹ بعد ہی آبادی کے آثار شروع ہوگئے اور میری جان میں جان آئی۔ یہ خانقاہ ڈوگراں نامی قصبہ تھا۔ قصبے کی گلیوں میں سے گزر کر مرکزی سڑک تک پہنچتے پہنچتے مغرب ہوگئی۔ مین روڈ سے اکا دکا بسیں اور ٹرک وغیرہ گزر رہے تھے۔ میں نے ایک دوکاندار سے لاہور کا رستہ پوچھا تو اس نے سڑک پر جنوبی سمت جانے کو کہا۔
یہ ایک سنگل اور ناہموار سی پرانی سڑک تھی جس پر چلتے چلتے گھنٹہ بھر گزرا ہوگا کہ پھر موٹروے آ گئی۔ لیکن اب یہ ہمارے سروں پر ایک پل کے اوپر اوپر سے ہی ہمیں احساس کمتری میں مبتلا کرتی ہوئی گزر گئی۔ پل کے نیچے سے گزر کر ہم آگے آئے تو شیخو پورہ میں تھے۔ ڈیڑھ گھنٹہ مزید سفر کرنے کے بعد جب ہم شاہدرہ سے گزرتے ہوئے لاہور میں داخل ہوئے تو رات کے آٹھ بج رہے تھے۔
لاہور پہنچ کر رات ایک ہوٹل میں بسر کی اور صبح اٹھ کر سب سے پہلے گاڑی لے کر کسی میکینک کی تلاش میں نکل گیا۔ کل گاڑی نے اپنی سست روی سے مجھے بڑا پریشان کیا تھا اور میں نہیں چاہتا تھا کہ اس خرابی کے ساتھ ہی کراچی جاؤں۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس دن اتوار تھا اور ساری دوکانیں بند تھی۔ ایک جگہ ایک میکینک کی بند دوکان نظر آئی۔ دوکان کے سامنے تین نوجوان بیٹھے گپیں لگا رہے تھے۔ میں نے گاڑی روکی اور ان سے میکینک کا پوچھا۔
”آج تو دوکان بند ہے جی“ ان میں سے ایک بولا۔
”لیکن بھائی مجھے آج کراچی نکلنا ہے اور ایک دن مزید رکنا مشکل ہے۔ کیا یہ میکینک آ نہیں سکتا؟“
”کراچی جانا ہے؟ … آپ کراچی سے آئے ہیں؟“ وہ بولا۔
”جی میں کراچی سے آیا ہوں“
”اوہ … اچھا رکیں … میکینک ہمارا دوست ہے، قریب ہی رہتا ہے، میں اسے بلا کر لاتا ہوں“ وہ بولا اور اٹھ کر چلا گیا۔ میں باقی دونوں کے پاس بیٹھ گیا۔
وہ تھوڑی ہی دیر میں مستری کو لے آیا۔ اس نے آتے ہی دوکان کا شٹر اٹھایا، اوزار نکالے اور میری گاڑی کا بونٹ کھول کر کام میں لگ گیا۔ گاڑی کے فیول پمپ میں کوئی خرابی تھی اور کام لمبا لگتا تھا۔ تھوڑی دیر میں دوپہر ہو گئی۔
”چلیں جی پیچھے ہمارے گھر چل کربیٹھتے ہیں“ میکینک کو لانے والا لڑکا منیر بولا۔ ”گاڑی ٹھیک ہوتی رہے گی آپ فکر نہ کریں“
ہم اٹھ کر پچھلی گلی میں اس کے گھر آ گئے۔ ابھی بیٹھے ہی ہوں گے کہ اس کے چھوٹے بھائیوں نے آ کر دسترخوان لگا دیا اور پھر گرما گرم کھانا لگ گیا۔
”یہ کیا تکلف کر رہے ہیں منیر بھائی؟“ میں بولا۔
”تکلف کی کیا بات ہے سر جی … آپ کراچی سے آئے ہیں … ہمارے مہمان ہیں“ وہ خوشدلی سے بولا اور میں ان لاہوری زندہ دل مہمان نوازوں کو حیرت سے دیکھتا رہا۔
”مان نہ مان میں تیرا مہمان“ تو بہت سنا تھا لیکن یہ ”مان نہ مان میں تیرا میزبان“ والا رویہ پہلی بار دیکھ رہا تھا۔
ہم کھانا کھا کر واپس آئے تو گاڑی تیار کھڑی تھی۔ میں نے مستری سے پیسوں کا پوچھا تو ایک قدم پیچھے ہو کر ہنسنے لگا۔
”نا جی نا … مہمان سے پیسے؟ … سوال ہی نہیں پیدا ہوتا“
”میں مہمان نہیں بھائی، میں گاہک ہوں“ میں جلدی سے بولا۔
”جی گاہکوں کیلئے تو آج چھٹی ہے۔ ہم نہ چھٹی والے دن کام کرتے ہیں، نہ پیسے لیتے ہیں۔ آپ ہمارے گاہک نہیں ہمارے مہمان ہیں۔“ اس نے ایک پیسہ بھی لینے سے انکار کر دیا۔
میں گاڑی لے کر ہوٹل واپس آگیا۔ اب گاڑی فراٹے بھر رہی تھی۔
صبح میں لاہور سے نکل آیا اور کراچی تک پھر گاڑی نے کوئی مسئلہ نہیں کیا۔
اگلے ہی مہینے موٹروے کا باقاعدہ افتتاح ہو گیا۔ افتتاح کے فوراً بعد شروع ہی کے دنوں میں مَیں نے ڈائیوو کی نئی بس سروس کے ذریعے لاہور سے اسلام آباد تک ایک سفر بھی کر ڈالا۔ اس کے بعد سے آج تک کئی مرتبہ پبلک ٹرانسپورٹ سے بھی اور اپنی گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے بھی موٹروے پر سفر کیا ہے، لیکن موٹروے پر اس پہلے سفر کی خواری لاشعور میں ہمیشہ ایک خوف کی طرح موجود رہتی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے اچانک کوئی سامنے آ کر گاڑی روک دے گا اور پھر موٹر وے سے کسی ویران سڑک پہ اترنے پر مجبور کر دے گا۔
لاہور کے ان نوجوان میزبانوں اور اس مہمان نواز میکینک سے میں بعد میں بھی جا کر ملتا رہا۔ اس میکینک کی بھی ایک عجب المناک کہانی تھی۔ جب میں پہلی بار اس سے ملا تو ان دنوں محلے میں ایک لڑکی سے اس کا معاشقہ چل رہا تھا۔ لیکن اس لڑکی کے گھر والوں نے اس کے ساتھ شادی نہ ہونے دی اور کسی اور کے ساتھ اس کی زبردستی شادی کر دی۔
لیکن شادی کے اگلے ہی دن لڑکی نے خودکشی کر لی اور ہمارے میکینک کو زندگی بھر کیلئے روگی کر دیا۔ ان لوگوں سے کچھ سال تو رابطہ رہا، لیکن اس وقت نہ موبائل فون عام تھے، نہ فیس بک تھا اور نہ ہی واٹس ایپ۔ اس لئے وہ وہ لوگ بھی حالات و واقعات میں گم ہو گئے اور میں بھی ان کیلئے گم گشتہ ہوگیا۔
تبصرہ لکھیے