ایک دفعہ مجھے ماہنامہ رابطہ انٹرنیشنل کی طرف سے سندھ کے شہر ”خیرپور“ کے تعارفی مضمون اور فوٹوگرافی کا اسائنمنٹ دیا گیا، جس میں مَیں نے اس لئے خصوصی دلچسپی لی کہ خیرپور میری جائے پیدائش بھی تھا۔
اس مضمون کیلئے میں نے خاص اہتمام کیا اور خیرپور روانہ ہونے سے پہلے کراچی کی کیمرا مارکیٹ میں قسیم صدیقی صاحب کی دوکان سے کینن کمپنی کا ایک سیکنڈ ہینڈ اچھا کیمرا Canon AE-1 خریدا اور ریل گاڑی میں بیٹھ کر خیرپور پہنچ گیا۔ یہاں میں شہر بھر گھوما پھرا، لوگوں سے ملاقاتیں کیں، معلومات جمع کیں، لائبریریاں دیکھیں، شہر کی قدیم عمارات اور خیرپور کے تاریخی قلعے ”کوٹ ڈیجی“ کا دورہ کیا۔ اس دوران تازہ خریدے گئے کیمرے سے اہم مقامات کی فوٹوگرافی بھی کرتا رہا۔
تین چار دن بعد کراچی واپس آ کر مضمون لکھنا شروع کیا اور ساتھ ہی کیمرے سے ریل نکال کر فیوجی لیب کو ڈویلپ ہونے کیلئے دے دی۔ اگلے دن جب میں لیب پہنچا تو ڈویلپ شدہ فلم رول دیکھتے ہی دھک سے رہ گیا.سارے کا سارا رول کالا تھا !
ایک بھی تصویر نہیں آئی تھی.
" یا اللہ … یہ کیا ہو گیا؟"
میں تو روہانسا ہو گیا۔ کیمرا اور رول لے کر پریشان چہرے کے ساتھ کیمرا مارکیٹ میں قسیم صدیقی صاحب کی دوکان پہنچا۔ قسیم صاحب مرحوم کراچی کے موجودہ معروف کیمرا ڈیلر ندیم صدیقی (کیمرا ورلڈ والے) کے والد تھے۔ میں نے قسیم صاحب کو خراب رول اور کچھ ہی دن پہلے ان سے خریدا ہوا کیمرا پیش کیا۔ وہ بھی یہ معاملہ دیکھ کر پریشان ہوئے۔ انہوں نے کیمرا کھول کر اور شٹر دبا کر اچھی طرح جانچ پڑتال کے بعد اعتراف کیا کہ کیمرا خراب ہے، اس لئے کہ فوٹو کھینچتے ہوئے اس کے شٹر کی آواز تو بالکل ٹھیک آتی ہے، لیکن شٹر کھلتا نہیں۔ اسی لئے ساری تصاویر کالی آئی تھیں۔
انہوں نے معذرت تو کی، لیکن جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا تھا۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ میں کوئی نیا قابل اعتماد کیمرا لے کر دوبارہ خیرپور جاؤں اور ساری فوٹوگرافی دوبارہ کروں۔ خیرپور دوبارہ جانے کیلئے تو میں تیار تھا، لیکن نئے اور بہتر کیمرے کیلئے پیسے کہاں سے آتے؟
قسیم صاحب نے مجھے ایک Minolta X700 کیمرا دکھایا اور کہا کہ یہ لے جاؤ۔ کیمرا تو شاندار اور پرکشش تھا، لیکن مسئلہ ان تین ہزار روپوں کا تھا جو مجھے اسے خریدنے کی صورت میں مزید دینے پڑتے۔ اس وقت تو یہ پیسے میرے پاس نہیں تھے۔ ہاں اگر رابطہ سے خیرپور والے مضمون کا معاوضہ مل جاتا تو میں یہ پیسے دے سکتا تھا۔ لیکن ابھی تو مضمون کیلئے فوٹوگرافی ہی نہیں ہوئی تھی۔
پہلے میں یہ کام مکمل کرتا، پھر رابطہ کے حوالے کرتا، پھر تیسرے مہینے یہ مضمون شائع ہوتا، پھر کہیں جا کے مجھے معاوضہ ملتا۔ لیکن کیمرا تو ابھی چاہئے تھا .... آج ہی اور فوری طور پر۔ میں نے قسیم صاحب کو یہ ساری صورتحال بتائی تو بولے :
”میاں کیمرہ تو ہم تمہیں دے دیں، لیکن ہمارا تجربہ یہ ہے کہ جسے ادھار دیا وہ کبھی واپس نہیں آیا“
”لیکن میں تو آؤں گا“ میں نے یقین سے کہا۔ قسیم صاحب نے گہری نظروں سے میرا جائزہ لیا اور بولے :
”اس کی کیا ضمانت ہے؟ … کوئی گارنٹی؟ … “
”گارنٹی تو کوئی نہیں میرے پاس“ میں بولا۔ ”بس ایک ضمانت دے سکتا ہوں“
”وہ کیا؟“
”میں اسلامی جمعیت طلبہ کا رفیق ہوں، انشاءاللہ بے ایمانی نہیں کروں گا“ یہ کہہ کر میں خاموش ہو گیا۔
قسیم صاحب نے کچھ دیر غور سے مجھے دیکھا، پھر اپنے بیٹے سے کہا :
”اے ندیم بیٹا … کیمرا دے دو … پیسے کہیں نہیں جاتے“ میں تو حیران ہی رہ گیا۔
نیا کیمرا لے کر میں اسی رات ٹرین سے روانہ ہوا اور صبح سویرے خیرپور پہنچ گیا۔ ایک ہی دن میں ساری فوٹوگرافی نمٹائی اور اگلے دن واپس کراچی پہنچ کر دھڑکتے دل کے ساتھ فلم رول ڈویلپنگ کیلئے لیب میں دے دیا۔ رول دوسرے دن مل گیا۔ بہت اعلیٰ، شارپ اور کلرفل تصویریں آئی تھیں۔ مضمون تو میں نے پہلے ہی لکھ رکھا تھا۔ دونوں چیزیں اٹھا کر رابطہ کے دفتر پہنچا اور ایڈیٹر کے حوالے کر دیں۔ تیسرے مہینے مضمون بھی دھوم دھام سے شائع ہو گیا اور معاوضہ بھی مل گیا۔ پیسے ہاتھ میں آتے ہی میں سیدھا صدر گیا اور قسیم صاحب کی دوکان پر پہنچا۔
پیسے ان کے حوالے کئے تو ان کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی۔ انہوں نے ایک مطمئن و معنی خیز انداز میں اپنے بیٹے ندیم صدیقی کی طرف دیکھا اور میرے لئے چائے منگا لی۔ اس دن قسیم صاحب سے پکی دوستی ہو گئی۔ قسیم صدیقی صاحب تو 1998ء میں اللہ کے پاس چلے گئے، البتہ ان کے سارے بیٹے آج بھی میرے دوست ہیں۔
تبصرہ لکھیے