پاک بھار ت جنگ یا ٹکرائو میں بہت کچھ ثابت ہوا ہے، کئی ایسی تھیوریز درست نکلیں جن پر ہمارے ہاں کئی حلقے (خصوصاً سیکولر، لبرلز)شک کرتے اور ان کا تمسخر اڑاتے تھے۔
اس چند روزہ جنگ میں ہمیں کئی ایڈوانٹیج ملے ہیں۔ دنیا بھر می میں پاکستان اور پاکستانی سرخرو ہوئے۔ اللہ کے فضل سے ہماری دلیری، عسکری فراست، مہارت اور بھار ت پر تکنیکی برتری ثابت ہوگئی ۔
اب کسی کو کوئی شک نہیں رہا کہ پاکستان اپنے کم وسائل کے باوجود اپنے سے نو گنا بڑے دفاعی بجٹ اور کئی گنا بڑی فوج اور اسلحہ رکھنے والے ملک بھا رت سے زیادہ بہتر اور برتر ہے۔ پاکستان کے چین اور ترکی جیسے قریبی دوست بھی اس مشکل اور آزمائش کے وقت میں سچے اور سرخرو ثابت ہوئے۔ اندازہ ہوا کہ پاکستان نے جو دفاعی پلان بنا رکھا تھا، جن ممالک پر تکیہ کیا گیا، وہ حکمت عملی درست تھی اور کسی نے دھوکا نہیں دیا۔
فکری محاذ پر ایک اور بڑی کامیابی یہ حاصل ہوئی کہ پاکستان میں مذہبی اور نظریاتی طبقہ پچھلے پچاس سال سے جو کچھ کہہ رہا تھا، وہ ایک بار پھر درست ثابت ہوا۔
وہ سب دعوے، وہ پیش گوئیاں، وہ اندازے ، وہ مفروضے اور وہ تنقید جو ہم جیسے لوگ ماضی میں کرتے آئے تھے اور ہمارے فکری مخالفین اس کا مذاق اڑاتے، اس پر شدید تنقید کرتے تھے، وہ سب ناقدین آج شرمندگی کے مارے منہ چھپائے پھرتے ہیں یا پھر کسی کھمبے کو ڈھونڈ رہے ہیں تاکہ اسے نوچ کر اپنی ندامت کو کم کر سکیں۔
ہم لوگ یہ باتیں کہا اور لکھا کرتے تھے کہ بھار ت ہمارا اصل دشمن ہے، اس کے خمیر میں تعصب اور ہن د و شد ت پسندی رچی بسی ہے۔ وہاں کے سیکولر دانشور اور سیکولر سیاسی جماعتیں بھی ہند و شد ت پسندی کی لہر کے آگے مغلوب ہوجاتے ہیں اور انہی کا زعفر انی چولا اوڑھ لیتے ہیں۔
ہم لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ یہ وا ہگہ بارڈر کے دونوں اطراف امن کی شمعیں روشن کرنے کے ڈرامے بند ہونے چاہئیں کہ امن یوں قائم نہیں ہوتا۔ امن اخلاقی درس دینے، کہانیاں سنانے اور امن کی آشا کی مالا جپنے سے نہیں قائم ہوتا۔ امن کے لئے قوت درکار ہوتی ہے، بھرپور دفاع کرنے، منہ توڑ جواب دینے کی قوت۔ تب جا کر امن قائم ہوپائے گا جبکہ کش میر جیسے دیرینہ اور مستقل نوعیت کے تنازع کو ختم کئے بغیر بھی کچھ نہیں ہوسکتا۔ ہر کچھ عرصے کے بعد پھر سے دونوں ممالک جنگ کے محاذ پر کھڑے ہوں گے۔
آج ہر کوئی اس کی تصدیق کرے گا اور یہ اب واضح ہوگیا کہ کش میر کے مسئلے کا حل نکالنا ہی پڑے گا۔ حد تو یہ ہے کہ صدر ٹرمپ جیسا موٹی موٹی باتوں کو پکڑنے والا عجلت پسند شخص بھی یہ سمجھ چکا ہے ۔ وہ کہہ رہا ہے کہ کش میر پر میں ثالثی کراتا ہوں اور یہ مسئلہ اب حل کرو۔
ہم انڈ یا کے بارے میں یہ کہتے تھے اور ہماری درسی کتب میں بھی یہی لکھا ہے کہ یہ مکا ر دشمن ہے اور اندھیرے میں چھپ کر وار کرتا ہے۔ سو یلین کو نشانہ بناتا ہے ، بے رحم،سفاک ہونے کے ساتھ گھٹیا پن اور کم ظر فی کے جذبات سے لبریز ہے۔
پاکستانی لبرل، سیکولر حلقے ان باتوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ طنزیہ طور پر انہوں نے اس کا نام مطالعہ پاکستان رکھ چھوڑا تھا، یہ اشارہ مطالعہ پاکستان یا پاکستان سٹڈی کے نام سے سبجیکٹ کی طرف تھا جس کی کتب پرائمری سے میٹرک اور انٹر تک نصاب کا حصہ ہیں۔ ان لبرل سیکولر نام نہاد دانشوروں اور بزعم خود مفکرین کے مطابق مطالعہ پاکستان جھوٹ پر مبنی ہے اور اس میں غلط باتیں شامل کی گئیں۔
مئی کے پہلے عشرے میں ہونے والی اس چند روزہ جنگ نے یہ سب کچھ ثابت کر دیا۔ بھار ت کا رویہ متکبرانہ، رعونت اور فرعو نیت پر مبنی تھا۔ اس نے پہلگا م اٹیک کے بعد تحقیقات کرانے کی معمولی سی کوشش بھی نہیں کی۔ فوری طور پر پاکستان کو ملزم ٹھیرایا، اسے سزا دینے کا اعلان بھی کر دیا۔ یعنی خود ہی الزام لگایا، خود ہی عدالت لگا کر فیصلہ سنایا اور پھر خود ہی اس پر عملدرامد کرنے نکل کھڑا ہوا۔ دنیا کی جدید تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حتیٰ کہ چن گیز اور ہلا کو خان جیسے سفاک لوگ بھی حملہ کرنے کے لئے کوئی باقاعدہ بہانہ ڈھونڈتے تھے اور کوئی ان سے معاملہ کرنا چاہتا تو وہ اس کے لئے کچھ گنجائش نکال لیتے تھے۔
بھا رت واقعی ایک مکا ر د شمن ثابت ہوا ، جس نے نصف شب کے بعد پاکستان پر حملہ کیا، سویلین مقامات کو نشانہ بنایا۔ کیا بھا رتی انٹیلی جنس کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ مر یدکے کمپلیکس کئی برسوں سے خالی پڑا ہے، جو وہاں تعلیمی اور دیگر چیریٹی سرگرمیاں تھیں، وہ بھی بند ہوچکی ہیں۔ وہاں ایک فی صد امکان بھی نہیں کہ کسی قسم کے جہ ا دی عناصر موجود ہوں۔ یہی بات بہاولپور کے اس دینی مرکز کے بارے میں ہے جہاں حملہ کر کے بے گناہ خواتین بچوں اور مردوں کو شہید کیا گیا۔ مظفر آباد ، کو ٹلی وغیرہ کی مساجد پر حملے بھی نہایت افسوسناک، شرمناک تھے ۔ وہاں بھی کہیں پر کوئی ایکٹوٹی نہیں تھی، دور دور تک امکان نہیں کہ جہا د ی عناصر وہاں ایکٹو ہیں۔ ایک مسجد جہاں پانچ وقت نماز ہوتی ہو، جہاں کوئی ، کسی بھی وقت جا سکتا ہو، وہاں پرکسی قسم کی خفیہ سرگر می کیسے ہوسکتی ہے؟
ایسا نہیں کہ انڈ ین انٹیلی ج نس کو اس کی اطلاعات نہیں ہوں گی۔ ان کی خفیہ ایج نسی پاکستان میں اپنے نیٹ ورک کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتی ہے، اربوں روپے وہ اس پر خرچ کرتے ہیں، ان کے یقینی طور پر پاکستان میں کچھ بدبخت ایجنٹ تو ہوں گے ہی، مگر انہیں سیٹلائٹ امیجز کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔ انڈ ین سیٹلائٹس کے علاوہ اس ر ا ئیل کی صورت میں انہیں ایک اور ظا لم اور بے ر حم پارٹنر کی خدمات حاصل ہیں جس کے پاس بے پناہ مواصلاتی اور جاسو سی کے وسائل اور ذرائع موجود ہیں۔
اس سب کے باوجود انڈ یا نے حملہ کیا، پاکستانی سو یلین مقامات کو نشانہ بنایا ، چھبیس سے زیادہ نہتے لوگ ش ہید کر دئیے جن میں نصف کے قریب خواتین اور بچے شامل تھے ۔ انڈ یا کے اس حملے نے ثابت کر دیا کہ وہ واقعی ایک مکا ر دشمن ہے، کم ینہ اور کم ظر ف حریف ہے جو کسی بھی قسم کے اخلاقی اصول نہیں مانتا۔ جو صرف بے رحم قوت سے ہمسایے کو کچل دینے پر یقین رکھتا ہے۔
ثابت ہوا کہ مطالعہ پاکستا ن میں آج تک جو بھی لکھا جاتا رہا، وہ درست اور سچ تھا۔ ہم نے ، پوری پاکستانی قوم اور دنیا بھر نے جو کچھ دیکھا، اسے لکھا جائے تو یہ نئی کتاب"مطالعہ پاکستان جدید "ہوگی۔
ہمارے اسلا مسٹ یا رائٹ ونگ کے لوگ یہ بھی کہتے آئے ہیں کہ بھار ت میں اکثریت اور خاص کر نارتھ انڈیا کے ہن د و شد ت پسندانہ سوچ رکھتے ہیں۔چاہے وہ کانگر یس یا کسی اور جماعت سے تعلق رکھتے ہوں، ان کے اندر بھی وہی شدت پسند ی ، تنگ نظر ی اورپاکستا ن دشمنی کے جراثیم موجود ہیں۔ وہ اپنے سیکو لر ازم کی چمکتی ہوئی چادر تلے اس سب کو چھپا لیتے ہیں البتہ بی جے پی نے یہ کام (ہمارے حساب سے اچھا) کیا کہ وہ سب بھرم، پردہ چاک کر دیا ۔ جو اندر سیا ہی اور گند تھا وہ باہر آگیا۔ جو شد ت پسندی ہن د و اکثریتی عوام کےدلوں میں پوشیدہ تھی، وہ ایکسپوز ہوگئی۔
اس جنگ میں ہم سب نے دیکھا کہ یہ تھیوری، یہ مفروضہ درست نکلا۔ شد ت پسندی، نفرت اور پاکستان مخالفت یوں ابل ابل کر باہر آئی کہ لوگ حیران رہ گئے۔ بہت سوں کو امید نہیں تھی کہ ششی تھرور جیسے بظاہر معتدل دانشور ،دھیمے مزاج والے بہت سے صحافی، کالم نگار، اینکر، بالی وڈ کے کئی فنکار یوں ننگے ہوجائیں گے، دھرو راٹھی بھی ویسا ہی نکلے گا؟ برکھا دت عرصے سے درپردہ پرو اسٹیبلشمنٹ کردار ہی ادا کرتی رہی، مگر اس نے یوں سب کو دھوکا دے رکھا تھا کہ جب اس جنگ کے موقعہ پر بر کھا دت نے بھی وہی نفرت انگیز جھوٹا پروپیگنڈہ کیا تو پاکستان میں برکھا دت کے مداحین ہکابکا رہ گئے۔ ہمارے لوگ اندازہ بھی نہیں کرسکتے تھے کہ بھار تی مین سٹریم میڈیا اور بڑے چینلز اس قدر جھوٹے، غلط اور فضول پروپیگنڈہ کر سکتےہیں۔ یہ سب کچھ ہوا، ہمارے ہاں بہت سوں کو اصل حقیقت پتہ چلی اور ان کاسب حسن ظن ہوا ہوگیا۔
اب جو کچھ لکھا جائے گا، وہ مطالعہ پاکستان جدید ہوگا۔ فرق یہ ہے کہ اس کا مذاق اڑانے والوں کا اپنا مذاق چکا ہے، وہ گنگ ہیں اور گنگ رہیں گے۔ وہ غلط ثابت ہوگئے۔ رائٹ ونگ کے لوگ ماضی میں جو کہتے تھے، وہ درست نکلا۔ ان کی باتیں تعصب پر مبنی نہیں بلکہ حقیقت کی ترجمان نکلیں۔
آج کا پاکستان نیا پاکستان ہے، جس کی نئی حقیقیتں، نئے معروضی سچائیاں ہیں۔ جس کے مطالعہ پاکستان کا اب جدید،نیا اور اپ ڈیٹیڈ ورشن ہوگا۔ جس کی سچائی سو فی صد درست اور تجربات سے تصدیق شدہ ہے۔
تبصرہ لکھیے