اسلام آباد محض پاکستان کا دارالحکومت نہیں، بلکہ یہ تمثیلِ زندہ ہے اس نظریہ ریاست کی، جس میں حکومت کو مادرِ ملت کا رفیع منصب عطا کیا گیا ہے۔یہ ایک ایسا شعور آفرین احساس ہے،جو اپنے ریاستی باشندوں کی نہ صرف ظاہری کفالت کرتا ہے بلکہ ان کی سیرت، فطرت اور اخلاقی تربیت کی بھی ذمہ داری بخوبی نبھاتا ہے۔
شہرِ اقتدار کی کشادہ اور صاف ستھری شاہراہیں،فطرت کے مناظر منظم و مربوط انفراسٹرکچرمحض تعمیر و ترقی کی علامت نہیں بلکہ تہذیبِ نو کی خاموش گواہی دیتے ہیں اور اس سب کے پسِ پشت میں ایک ایسا نظام کار فرما ہے، جوشور و غوغا سے ماورا،بغیر نمود و نمائش مگر پورے شعور اور احساسِ فرض کے ساتھ قوم کی بنیادوں کو مستحکم کرنے میں شبانہ روز مصروفِ عمل ہے۔
آج جب ہم اسلام آباد کی انتظامی تصویر پر نگاہ ڈالتے ہیں، تو وہاں ایک نیا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ وہ رنگ جو اسسٹنٹ کمشنرز اور مجسٹریٹس کی سنجیدہ کوششوں، مسلسل چھاپوں اور واضح احکامات سے ابھرا ہے۔کم از کم اجرت کا تعین ہو یا عملدرآمد کی نگرانی، یہ عمل محض اعلان تک محدود نہیں رہا۔ سنتیس ہزار روپے ماہانہ اجرت کی،جو حکومتی حد مقرر کی گئی ہے، اس کے نفاذ کے لیے مارکیٹوں، پلازوں اور دفاتر میں باقاعدہ چیکنگ کی جا رہی ہے اور یہ احساس دلایا جا رہا ہے کہ مزدور صرف ایک ہنر مند نہیں بلکہ عزت دار شہری بھی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ گداگری کے خلاف جاری مہم بھی ایک سماجی اصلاح کی مثال بن چکی ہے۔ شہر کے مختلف مراکز، سڑکوں اور شاپنگ سینٹرز پر بھکاریوں کا دائرہ کار روز بروز کم ہو رہا ہے اور ان عناصر کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں، جو اس کو پیشہ بنا کر انسانی ہمدردی کا استحصال کرتے ہیں۔
تجاوزات کے خاتمے کی مہم شہر کو صرف خوبصورت نہیں بنا رہی بلکہ قانون کی بالادستی کا پیغام بھی دے رہی ہے، جہاں کہیں بھی سرکاری زمین پر ناجائز قبضہ ہوا، وہاں بلاتفریق کارروائی کی جا رہی ہے خواہ وہ کسی ریڑھی والے کی ایک فٹ زمین ہو یا کسی پلازہ مالکان کی دس مرلے کی توسیع۔
پرائس کنٹرول بھی ایک اہم مسئلہ ہے اور اس پر بھی ضلعی انتظامیہ پوری سنجیدگی سے متحرک دکھائی دیتی ہے۔ روزمرہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے اسسٹنٹ کمشنرز خود بازاروں میں جاتے ہیں، جرمانے عائد کرتے ہیں اور عوام کو سستا بازار فراہم کرنے کی کوشش اور سعی کرتے ہیں۔
ضلع انتظامیہ پلاسٹک بیگز کے خلاف مہم نہ صرف ماحولیاتی شعور کو اجاگر کر رہی ہے بلکہ اس عمل میں اسلام آباد کو ایک ماڈل گرین سٹی بنانے کا عزم بھی جھلکتا جارہا ہے۔ دکانداروں، شاپنگ مالز اور ہول سیل مارکیٹوں میں ماحول دوست بیگز کے فروغ کے لیے عملی اقدامات ہو رہے ہیں۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ا سلحہ لائسنس کی ازسرنو جانچ، غیر قانونی اسلحہ رکھنے والوں کے خلاف کارروائیاں اور شیشہ کیفے کے نام پر نوجوان نسل کی صحت سے کھیلنے والے مراکز کی بندش۔ یہ سب انتظامیہ کے عزم کی نشانیاں ہیں کہ شہر صرف خوبصورت نہیں، صحت مند اور محفوظ بھی ہونا چاہیے۔
ہاسٹلز کی نگرانی، ایل پی جی سلنڈرز کے محفوظ استعمال کی مہم، پیٹرول پمپوں کی ذخیرہ اندوزی یا ناپ تول کی خلاف ورزیوں کے خلاف کارروائیاں اور عوام کو لوٹنے والے ایجنٹ مافیا کے خلاف آپریشن۔ہر ہر پہلو میں ایک منظم و مربوظ ریاست کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ یہ سب اقدامات صرف کاغذوں یا سوشل میڈیا کی زیب و زینت نہیں بن رہے بلکہ عملی میدان میں اسسٹنٹ کمشنرز اور ان کی ٹیموں کی موجودگی سے ظاہر ہو رہا ہے۔ ڈینگی سے بچاؤ ہو یا پولیو مہم، ہر موقع پر یہ افسران خود فیلڈ میں موجود ہوتے ہیں، ٹیموں کو لیڈ کرتے ہیں اور عوام کے ساتھ براہ ِراست رابطہ قائم کرتے ہیں۔
تاہم ان تمام مثبت اقدامات کے باوجود ایک ایسا مسئلہ ہے جو آج بھی اسلام آباد کے شہریوں کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے اور وہ ہے شہر کے مختلف مراکز میں قائم کار شوروم مافیا کا قبضہ۔ خصوصاً جی نائن، جی ٹین اور جی الیون کے مرکزی علاقوں میں کار شوروم مافیا نے فٹ پاتھوں، پارکنگ ایریاز اور عام سڑکوں تک کو اپنی گاڑیوں سے گھیر رکھا ہے۔ جب ایک عام شہری اپنی گاڑی پارک کرنے آتا ہے تو اسے کوئی مناسب جگہ نہیں ملتی اور وہ مجبوراً غلط جگہ کھڑی کر دیتا ہے، جس کا نتیجہ چالان اور مالی نقصان کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ ایک ناقابلِ برداشت صورتحال ہے جس پر سخت کارروائی ناگزیر ہے۔
اسلام آباد انتظامیہ کی یہ کارکردگی نہ صرف قابلِ تعریف ہے بلکہ دیگر شہروں کے لیے ایک ماڈل بھی بن سکتی ہے۔ ایک ایسا ماڈل جس میں افسر محض کرسی کا حصہ نہیں بلکہ عوامی خدمت کا عزم لے کر باہر نکلتا ہے، جہاں دفتر کی فائلیں صرف دستخط کے لیے نہیں، عوامی مسائل کے حل کے لیے کھولی جاتی ہیں۔
یہی طرزِ حکمرانی، یہی اندازِ عمل، ایک بہتر پاکستان کی بنیاد بن سکتا ہے۔ اگر دیگر اضلاع اور صوبے بھی اسی جذبے، نظم اور ذمہ داری کے ساتھ آگے بڑھیں تو وہ دن دور نہیں جب ریاست واقعی ماں جیسی ہو گی، مہربان، ذمہ دار اور تحفظ دینے والی.
تبصرہ لکھیے