آ تجھ کو بتاؤں تقدیرِ امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول، طائوس و رباب آخر
علامہ محمد اقبالؒ کے ان اشعار نے انسانی تاریخ کو سمیٹ کر چند الفاظ میں بتادیا کہ جب قومیں اپنے عروج کا سفر طے کرتی ہیں تو ان کی ترجیحات کیا ہوتی ہیں اور جب وہ زوال و پستی کی راہوں کی مسافر بنتی ہیں تو ان کے مشاغل کس اقسام و نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ایک بڑے مشہور دانشور کی ویڈیو نظر سے گزری تو بہت عرصہ قبل دیکھی ایک اور ویڈیو ذہن میں چلنے لگی جس میں ایک بھارتی صحافی اسکول کی بچیوں سے پاکستان کے ایٹمی دھماکے کرنے پر ان کے احساسات اور سوچ کو جاننے کے لیے سوال کرتا ہے کہ آپ پاکستان کے ان دھماکوں کو کیسے دیکھتی ہیں؟ ویڈیو کے شروعات میں ان بچیوں کو پرجوش انداز میں تقاریر کرتے ہوئے دکھایا گیا جس میں وہ بھارت کے خلاف اور پاکستان کے حق میں اپنے اپنے دلائل دیتے دکھائیں گئیں۔ اور بعد میں انڈین صحافی کی طرف سے پوچھے جانے پر جب وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہیں تو وہ میرے لیے کچھ حیران کن تھا، وہ بچیاں میرے خیال میں آٹھویں یا نویں جماعت کی طالبات ہوں گی، ان میں سے ایک بچی نے کہا کہ پاکستان کو نہیں کرنے چاہیے تھے، دوسری بچی نے کہا کہ کرنے تو نہیں چاہیے تھے لیکن انڈیا نے پہل کی تو پھر مجبورا پاکستان کو بھی کرنے پڑے، ایک اور بچی گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہتی ہے کہ یہ ضیاع ہے ملکی وسائل کا. یہاں ذہن میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ یہ سوچ پچوں کو کہاں سے ملتی ہے؟ تو میرے نزدیک وہ میڈیا پہ بیٹھے خود کو ’’بڑا دانشور‘‘ سمجھنے والے حضرات کا تحفہ ہے جو خود تو غلامانہ ذہینیت رکھتے ہی ہیں، ساتھ ساتھ اس کوشش میں ہیں کہ اس ملک کے نوجوان بھی ان کے نقشِ قدم پر چل نکلیں۔
علامہ اقبال تو اس جانب نشان دہی کرتے ہیں کہ قومیں جب اٹھتی ہیں تو شمشیر کی جھنکار ہی ان کی موسیقی ہوتی ہے اور میدانوں میں صدائیں ان کے نغمے، وہ ہر وقت چوکس اور تیار رہتے ہیں، دشمن ان کی جانب میلی آنکھ سے نہ دیکھے اس لیے وہ ہتھیاروں سے لیس، چوکنّے اور ہمہ وقت دشمن کی چالوں پر نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی علم و حکمت میں ان کی گہری دلچسپی ہوتی ہے. مسلمانوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جب چند علاقوں کے سوا پوری دنیا میں مسلمانوں کی حکومت تھی، سائنسی میدان میں جتتی ترقی اس دور میں ہوئی ان میں مسلمانوں کے نام نمایاں تھے، جرات و بہادری، علم و حکمت، سیاست و تدبیر میں ان کا کا کوئی مقابل نہ تھا۔ غرناطہ، دمشق، بغداد، قرطبہ میں علمی تحقیقی مراکز قائم کیے گئے اور ساری دنیا کے علم کا عربی میں زبان میں ترجمہ کیاگیا. یہی وجہ تھی کہ وہ دور مسلمانوں کی علمی کامیابی کا بہترین دور تھا۔ لیکن جب ہماری ترجیحات بدلیں اور ہم کھیل کود، اور دوسرے تماشوں میں لگ گئے تو رفتہ رفتہ یہ کامیابیاں ناکامیوں میں تبدیل ہونے لگیں اور آج صورتحال کچھ ایسی ہے کہ بےپناہ قدرتی وسائل ہونے کے باوجود ذلت و رسوائی کی گہرائیاں مقدر ہیں۔
اور زوال کے اسباب کو اقبالؒ نے اس شعر کے دوسرے حصے میں سمجھایا، عروج کا سفر طے کرتے وقت تو قومیں اس طرح کا سامان کرتی ہیں اور دوسرا حصہ کہ جب اقوام پستی و گہرائی کی جانب سفرِ منزل طے کرتی ہیں تو وہ موسیقی کی رسیا اور مے کے نشے میں دھت ہوتی ہیں، ناچ گانا ان کی گھٹی میں شامل ہوجاتا ہے اور ڈھول کی تھاپ پر رقص ان کا مشغلہ بن جاتا ہے. لہو و لعب کی محافل کا انعقاد ’’ کلچر‘‘ کے نام پر کیا جاتا ہے، اب تو کچھ حلقوں کی طرف سے یہ آواز آنا بھی شروع ہوگئی ہے کہ موسیقی ’’حلال‘‘ ہے. خودساختہ ’’بڑے دانشور‘‘ صاحب یہ فرما رہے ہیں کہ آپ کو ان ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کوئی انھیں بتائے کہ یہ تو قرآنی حکم ہے کہ دشمن کے مقابلے کےلیے خود کو تیار رکھنا ہے. فرمان الہی ہے کہ ’’تم ان کے مقابلے کے لیے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کو تیار رکھو کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی جنہیں تم نہیں جانتے، مگر اللہ انہیں خوب جانتا ہے‘‘۔ ( انفال - 60 )
اس آیت کی تفسیر میں مفسیرینِ کرام فرماتے ہیں کہ اس دور میں تیر اندازی ایک بہت اہم جنگی ہتھیار اور نہایت اہم فن تھا جس کے لیے گھوڑے ناگزیر ضرورت تھے، اب چونکہ ان کی افادیت و اہمیت باقی نہیں رہی تو اس آیت کی رُو سے آج کل کے جدید ہتھیار جیسے میزائل، ٹینک، اور ہوائی و بحری جنگی جہاز اور آبدوزیں وغیرہ کی تیاری ضروری ہے. اب دو ہی راستے ہیں یا تو ہم اپنے رب کی بات مانتے ہوئے ہتھیار تیار کرتے رہیں اور ہر جانے انجانے اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں یا پھر ان حضرات کی بات مان لیں اور دشمنانِ پاکستان کے لیے راستہ کھلا رکھیں کہ جس کا دل چاہے وہ آئے اور ہمیں روند کر چلا جائے.
خود ساختہ بڑے دانشور لفظوں سے ایسی بساط بچھاتے ہیں کہ اچھا خاصا شعور رکھنے والا شخص ان کے دام میں آجائے اور کہا جاتا ہے کہ داعیِ شر ہمیشہ ’’خیرخواہ‘‘ کے بھیس میں ہی آتا ہے اور خوبصورت پیکنگ میں اپنی چیز فروخت کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ وسائل اور پیسے کا ضیاع ہے، ہمارے پاس کھانے کو روٹی نہیں، پینے کو صاف پانی نہیں اور ہم ہر وقت جنگی سازوسامان کی تیاری میں لگے رہتے ہیں، اس سے بہتر ہے کہ آپ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں. نہیں معلوم کہ ان کو کس چڑیا نے خبر دی ہے کہ دفاعی بجٹ ہی دراصل پاکستانی عوام کے فلاح و بہبود میں اصل رکاوٹ ہے وگرنہ تو امریکی پاکستان ایمبیسی کے باہر قطار در قطار کھڑے ہوتے ہیں.
امن کی آشا اور اس جیسے دیگر نعرے لگانے والے سارا سبق پاکستان کو ہی دیتے ہیں، پڑوسیوں یا بڑی طاقتوں کو نہیں جو اسلحے کے انبار لگائے جاتے ہیں. ان کا مشورہ ہے کہ ہمیں صلح صفائی اور امن کے ساتھ رہنا چاہیے. مگر اگر ہمسائے یا فریق مخالف ایسا نہ چاہے تو یکطرفہ طور پر ایک ہاتھ سے تالی کیسے بجے گی. مصالحت اور دوستانہ تعلقات کون نہیں چاہے گا مگر یہ برابری کی سطح پر ہوگا نہ کہ آقا اور غلام کے طور پر. جو حضرات تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم امن سے رہنا ہی نہیں چاہتے تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اسلام اور مسلمان سے بڑھ کر کون امن و صلاح کا متمنی ہے۔ اوپر بیان کی گئی آیت سے اگلی آیت میں اللہ تعالی اپنے حبیب سیدالنبیاء ﷺ کو حکم کرتے ہیں کہ ’’اور اے نبی، اگر یہ دشمن صلاح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو آپ بھی اس کے لیے آمادہ ہوجائیں، اور اللہ پر بھروسہ کریں یقیناً وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ دھوکے کی نیت بھی رکھتے ہوں تو تمھاریے لیے اللہ ہی کافی ہے۔‘‘ ( انفال - 61،62 )
اس کی تفسیر میں مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں ’’یعنی بین الاقوامی معاملات میں تمھاری پالیسی بزدلانہ نہیں ہونی چاہیے بلکہ خدا کے بھروسہ پر بہادرانہ اور دلیرانہ ہونی چاہیے۔ دشمن جب گفتگو سے مصالحت کی خواہش ظاہر کرے، بے تکلف اس کے لیے تیار ہوجاؤ اور صلح کے لیے ہاتھ بڑھانے سے اس بنا پر انکار نہ کرو کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ صلح نہیں کرنا چاہتا بلکہ غداری کا ارادہ رکھتا ہے، کسی کی نیت بہرحال یقینی طور پر معلوم نہیں ہوسکتی، اگر وہ واقعی صلح کی نیت رکھتا ہو تو تم خوامخواہ اس کی نیت پہ شبہ کرکے کے خونریزی کو طول کیوں دو۔ اور اگر وہ غداری کی نیت رکھتا ہو تو تمھیں خدا کے بھروسے سے بہادر ہونا چاہیے، صلح کے بڑھنے والے ہاتھ کے جواب میں ہاتھ بڑھاؤ تاکہ تمھاری اخلاقی برتری ثاپت ہو اور لڑائی کے لیے اٹھنے والے ہاتھ کو اپنی قوتِ بازو سے توڑ کر پھینک دو تاکہ کبھی کوئی غدار قوم تمھیں نرم چارہ سمجھنے کی جرات نہ کرے۔‘‘
ٹی وی پر نظر آنے والے یہ ’’دانشور‘‘ عوام کو ذہنی طور پر اس قدر الجھا دینا چاہتے ہیں کہ ملکی دفاع تو دور اس کا خیال بھی ان کے ذہنوں میں ابھرنے نہ پائے، آئے دن ملکی دفاعی اداروں اور فوج کے خلاف ہرزہ رسائی اور ان کے خلاف زہر اگلتے رہنا، طنز و طعن کرنا ان کے مشاغل میں سے ہے۔ عوام اور فوج کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کرنا جن کا مقصدِ حیات ہے۔ ایک بہت ہی ’’جوشیلے دانشور‘‘ جو خود اپنے خیالات میں تضاد رکھتے ہیں، اکثرعلامہ اقبال کے کلام کو ایسے انداز میں عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں جیسے یہ بےوقوفی کے سوا کچھ نہیں، علامہ صاحب کی شخصیت کو متنازع بنانے کے لیے ان کے اشعار پر بھپکیاں کسی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ بھلا شہباز اور ممولے کا بھی کوئی مقابلہ ہے. انھوں نے تاریخ اسلام کے آغاز کا کچھ مطالعہ کیا ہوتا تو ایسی بات نہ کہتے۔ جہاں ہر معرکہ ہی شہباز اور ممولے کی طاقت کا سا ہوا تھا.
ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ اقبال کیا ہے دو ڈھائی ملکوں کا جینئس بس؟ اگر اقبالیات پر لکھی سینکڑوں کتابوں اور نیویارک، بیلجیم جیسی بین الاقوامی کانفرنسز میں اقبالیات پر پڑھے گئے مقالوں پر نظر ہوتی تو انھیں معلوم ہوتا کہ اقبالؒ کون تھے لیکن یہاں بھی ایک بہت خوبصورت بات جو ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنے کالم میں کہی تھی کہ ’’وسیع مطالعے اور گہری نظر سے اقبالؒ کو شاید پڑھا تو جاسکتا ہے لیکن سمجھا نہیں جاسکتا، کلامِ اقبال اور خطباتِ اقبال کی روح قرآنی تعلیمات، اسلامی تاریخ، علومِ مشرق وغیرہ سے ماخوذ ہیں اس لیے جو اسکالر بھی محض مغربی علوم سے استفادہ کرکے اقبالؒ کو سمجھنے کی کوشش کرےگا وہ ناکام رہے گا۔ سچ یہ ہے کہ ٹی وی چینلز پر ایسے ہی لوگ چھائے ہوئے ہیں‘‘
آخر میں بس ایک واقعہ نقل کرتا ہوں جس سے پوری بات سمجھ آ جائے گی. 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے وقت اسرائیل شدید مالی بحران کا شکار تھا اور جدید اسلحہ خریدنے کے پیسے نہیں تھے. وزیرِاعظم گولڈا میئر نے جدید جنگی طیاروں، میزائلوں اور توپوں کے لیے امریکہ سے اربوں ڈالر کا معاہدہ کیا مگر کابینہ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اس طرح پوری قوم کو ایک وقت کا کھانا نصیب ہوگا تو گولڈا میئر نے کہا کہ اگر ہم عربوں سے جنگ جیت جاتے ہیں تو تاریخ ہمیں فاتح کے طور پر یاد رکھے گی اور یہ نہیں دیکھے گی کہ ہماری قوم کیا کھاتی تھی اور اس کے لباس پر کتنے پیوند تھے. وقت نے یہ ثابت بھی کیا اور اسرائیل نے جدید اسلحے کی بدولت عربوں پر فتح حاصل کی. جنگ کے بعد امریکی صحافی نے گولڈا میئر سے سوال کیا کہ شدید معاشی بحران کا شکار ہوتے ہوئے آپ نے اتنے بڑے اسلحے کی خریداری کا فیصلہ کیسے کیا تو اس نے جواب دیا کہ میں نے یہ فیصلہ مسلمانوں کے نبی کریم ﷺ کے بارے میں ایک واقعہ پڑھ کر کیا کہ جب نبی کریمﷺ کی وفات کے وقت گھر میں چراغ جلانے کے لیے تیل خریدنے کے پیسے نہیں تھے، اس وقت ان کے گھر کی دیوار پر 9 تلواریں لٹک رہی تھیں. جب میں نے یہ تاریخی واقعہ پڑھا تو یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ دنیا میں آج کتنے ایسے لوگ ہیں جو اس وقت کی اسلامی معاشی حالت کو جانتے ہوں گے لیکن آج بھی دنیا مسلمانوں کو آدھی دنیا کے فاتح کے طور پر جانتی ہے۔ اس لیے میں نے ہر قیمت پر اسلحہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا، خواہ اس کے لیے ہمیں فاقے ہی کیوں نہ برداشت کرنے پڑیں۔
پاکستان کی ہتھیار سازی کے مخالفین کی آنکھیں کھول دینے کےلیے یہ ایک واقعہ ہی کافی ہے.
تبصرہ لکھیے