مجھے یاد ہے کہ آج سے تقریباَ بیس سال پہلے کی بات ہوگی ایک دوست حلقہ غامدیہ کی ایک محفل میں ساتھ لے گئے کہ چلو عالم اسلام کے ایک بڑے مفکر سے ملاقات کرواؤں اس دور میں بہت سے لوگ نئے نئے غامدیت کے حلقہ دام میں داخل ہوئے تھے. وہیں پر میری ملاقات ریحان یوسفی صاحب سے ہوئی کہ جو سینیر غامدی تھے اور محترم جناب عامر گزدر صاحب سے بھی ملاقات ہوئی کہ جو ابھی جونیئر تھے. اس محفل میں سوال و جواب کی نشست کے دوران میں نے دو سوالات پوچھے تھے۔
اول موجوہ مدارس کے نظام یعنی درس نظامی کی بابت آپ کی کیا رائے ہے ؟
دوم آپ کی دعوت کا بنیادی مقصود کیا ہے ؟
پہلے سوال کے جواب میں موصوف نے فرمایا تھا کہ یہ نظام ختم ہو جانا ہے. یہ ایک مردہ ہے جس کی تدفین ہو جانی چاہیے اور اسے یاد گار کے طور پر کسی عجائب خانے میں رکھوا دیا جائے۔
دوسرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ ہمارا بنیادی مقصود دینی مقاصد کی از سر نو تشکیل ہے، یعنی ری کنسٹرکشن ہے. شاید موصوف نے یہ تصور علامہ اقبال ؒ سے مستعار لیا تھا مگر اس کی مکمل معنویت کے بغیر۔
عجیب بات یہ ہے کہ جب غامدی حلقہ جات نے یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم کے پراجیکٹ مدرسہ ڈسکورسز کے ساتھ اشتراک عمل کیا تو انھیں اندازہ ہوا کہ ہمیں ایک بڑی علمی کمک مدارس کے نوجوان علماء کی شکل میں مل سکتی ہے. دنیا کے متعدد ممالک اور پاکستان کے چند خوبصورت علاقوں کا ٹور کروانے کے دلفریب تصور نے بہت سے نوجوان علماء کو جدیدیت کی اس راہ کی طرف راغب کیا اور اس کا نتیجہ بھی حاصل ہوا . غامدی حلقہ جات کو دیوبند مدارس کے نوجوان علماء کی ایک بڑی کمک حاصل ہوئی اور اس سے غامدیت کا مزاج بھی تبدیل ہوا. وہ غامدیت کہ جو پہلے اصلاحی اور فراہی منہج سے تعلق رکھتی تھی، اس میں ایک خاص فقہی رنگ یا فرقہ وارانہ رنگ شامل ہو گیا . اب اس تبدیل شدہ غامیت کو ایک جدید مدرسہ بھی درکار تھا، اس لیے غامدی صاحب کے اس جملے کی بہت سے تاویلات بھی کی گئیں. یہی معاملہ تصوف اور خانقاہی تصور حیات کا تھا. غامدی صاحب کہ جو متصفوفانہ افکار کے ایک بڑے مقابل تھے، اب خانقاہیت کی ایک جدید شکل کے ساتھ سامنے آئے، کیونکہ استعمار جدید اور عالمگیریت کو ایک نیا تصوف درکار تھا تو جناب اب غامدی صاحب کے یہاں سے ابن عربی کے افکار کی تاویلات بھی شروع ہو گئیں۔
دوسری جانب ری کنسٹرکشن کے دعوے پر عملی کام شروع ہوا، اور یہ خاص اکیڈمک اور گہرا کام تھا. اس کام کے دوران قرآن و سنت اور تصور دین کی ایک یکسر مختلف بلکہ روایت پسندوں کے متوازی فکر پیش کی گئی، یہ ایک ایسا کام تھا کہ جس نے روایتی دینی فکر کو بڑے دائرے میں نقصان پہنچایا۔
غامدی منہج فکر کے انحرافی عنوانات میں جو مشہور ہوئے، وہ چہرے کے پردے کا انکار ، روزے کے مسائل کی تعبیر نو ، عذاب قبر کا انکار ، حیات النبی ﷺ کا انکار تو چند ابتدائی عنوانات تھے. اس کے بعد مسئلہ تکفیر اور اتمام حجت کے حوالے سے جدید تصورات اس سے اوپر کے عنوانات تھے. پھر دین کی تمام تر مابعد الطبیعیاتی تعبیرات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے دین کو ایک ریشنل اور پریگمیٹک تصور بنانے کی کوشش دراصل ری کنسٹرکشن کے بنیادی عوارض تھے۔
ہم یہ بالکل نہیں کہتے کہ غامدی صاحب کسی عالمی سازش کا جانتے بوجھتے حصہ بنے بلکہ ہماری ناقص رائے میں انہیں تعبیر کی شدید ترین غلطی لگی۔ موجودہ حالات میں جب آپ دیکھتے ہیں کہ کس طرح غامدی مکتب فکر ایک پسپا ہو جانے والی سوچ رکھتا ہے تو ہمیں وہ بنیادی زاویہ دکھائی نہیں دیتا کہ جو اس کی بڑی وجہ ہے۔
غامدی منہج فکر پراجمالی نگاہ
غامدی صاحب یااسلامی دنیا میں ماضی قریب خاص کر دور استعمار اور مابعد استعمار اٹھنے والی تحاریک کی سرکردہ شخصیات جنھیں اسلامی دنیا کے ماڈرنسٹ کہا جا سکتا ہے ، کا بنیادی مقدمہ تین اہم نکات پر کھڑا ہے. اگر ان نکات کو ترتیب وار دیکھا جائے تو ہمیں وہ " میزان " دکھائی دیتی ہے کہ جس پر یہ حضرات دین اور اس کے متعلقات کا تعین کرتے ہیں۔
٭ پہلا نکتہ تو یہ کہ دین صرف ایک محدود تر تناظر میں اپنی روایت کے ساتھ قابل قبول ہو سکتا ہے یعنی دین کو اس کے تاریخی تسلسل اور روایت سے الگ کرکے صرف چند اصولی اور اخلاقی مباحث لے لیے جائیں اور باقی دین کی ایک ایسی تعبیر نو کی جائے کہ جو موجودہ دور کے ساتھ چل سکے. درحقیقت دین کی پوری روایت کے حوالے سے اس طبقے کو یہ اعتماد نہیں ہے کہ معاشرتی اور تہذیبی سطح پر یہ اپنا وجود برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
٭ دوسرا نکتہ دین کو مخصوص دائروں میں یا دائرے میں محدود کرنے کا ہے. ان کے نزدیک دین ایک مکمل نظام حیات نہیں ہے، بلکہ محدود اعتقادی و اخلاقی امور پر مشتمل ایک نظریہ ہے. باقی معاشی ، معاشرتی ، سیاسی ، تہذیبی میدانوں میں دین کا سرمایہ داریت پسند ہو جانا یا لبرل ہو جانا یا سیکولر ہو جانا یا ہیومنسٹ ہو جانا ان کے نزدیک کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔
٭ تیسرا نکتہ دین کی خالص ریشنل تعبیر ہے دین کی ایک ایسی تعبیر کہ جسے آج کی عقل تسلیم کر سکے، اسی لیے مابعد الطبیعیات یا ماوراء العقل مسائل کا اس طبقے میں انکار ملتا ہے۔
اگر ان نکات کو سامنے رکھ کر اس منہج فکر کا مطالعہ کیا جائے تو کسی ایک منطقی نتیجے تک پہنچا جا سکتا ہے. دور جدید میں تجدد کے حوالے سے غامدی منہج فکر کا فتوے کی زبان سے ہٹ کر خالص اکیڈمک مطالعہ ضروری ہے۔
غامدی صاحب ایک مخصوص حلقے سے مخاطب ہوتے ہیں. ایک طرف تو یہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ ہے تو دوسری جانب اپر مڈل کلاس اور اپر کلاس سے منسلک طبقہ ہے. غامدی صاحب کے مدعو بڑے بڑے کانفرنس ہالز اور فائیو سٹار تقریبات میں شرکت کرنے والے آڈیٹوریمز میں بیٹھے ہوئے یا کسی سٹوڈیو میں موجود الیٹ کلاس ناظرین و سامعین ہیں , ایک عام آدمی خود کو غامدی صاحب سے منسلک نہیں کر پاتا. ایک طرف تو اس کی رسائی غامدی صاحب کی دعوت تک نہیں، دوسرے غامدی صاحب کے اطراف میں موجود مجمع کو دیکھ کر وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے. پہلے تو صرف کلاس کا فرق تھا مگر اب اسے شدید علمی تکبر کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، یعنی وہ غامدی صاحب کے سرکل سے قریب ہوتا ہے تو اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ کچھ نہیں جانتا. وہ نرا جاہل ہے. اس تک دین کے نام پر جو کچھ بھی پہنچا سب غلط تھا. وہ جس روایت سے آج تک جڑا ہوا تھا وہ روایت دریا برد کر دیے جانے کے لائق ہے. یعنی ایک طرف تو طبقاتی طور پر اور دوسری طرف علمی طور پر وہ خود کو غامدی صاحب سے relate نہیں کر پاتا، اسی لیے ایک چوکیدار ،ایک پھل فروش، ایک مزدور، ایک غریب طبقے سے تعلق رکھنے والا فرد یعنی کہ اکثریت غامدی صاحب سے الگ رہتی ہے. لوگ سادگی سے بنا احساس کمتری میں مبتلا ہوئے غامدی صاحب کے حلقے سے وہ سوال نہیں پوچھ سکتے کہ جو ایک عام مولوی سے پوچھ سکتے ہیں۔
اب دوسرے نکتے پر غور کیجیے ، مخصوص علمی اور طبقاتی گروہ سے منسلک ہونے کی وجہ سے غامدی صاحب کے دعوتی حلقے میں کسی درجہ مصنوعیت اور کسی درجہ مادیت کے اثرات ہیں. قریب قریب تمام تر مابعد الطبیعیاتی امور کے حوالے سے یا تو آپ کو انکار ملے گا یا پھر ایسی تاویل ملے گی کہ جو rational thinking کے دائرہ کار میں ہو مذہب سے متعلق ہر وہ نظریہ یا اعتقاد کہ جو rationality یعنی reason اور logic کے دائرہ کار میں نہ ہو، ان کے یہاں غیر مقبول ہے . دین کی شدید ترین مادی تعبیر درحقیقت دین کو کسی بھی ازم کے مترادف کر دیتی ہے، اسی لیے غامدی منہج فکر سے منسلک لوگ شدید ترین روحانی قحط کا شکار ہو جاتے ہیں. اب چاہے وہ تلاوت کو کار لاحاصل سمجھنا ہو یا کسی بھی روحانی پریکٹس میں درکار لاجک یا مقصود کا نظر نہ آنا ہو ، غامدی صاحب کے یہاں دین ایک مشینی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
غامدی منہج فکر سے منسلک وہ سلیم الفطرت اصحاب کہ جو اپنے اندر روحانیت کی کچھ مقدار رکھتے ہیں، جب اس حلقے کی مصنوعیت اور مشینیت ان سے برداشت نہیں ہو پاتی تو اس حلقے سے باہر نکل آتے ہیں اور روحانیت کی طرف مائل ہوتے ہیں یا پھر تصوف سے منسلک ہو جاتے ہیں۔ اسی کمی کو دور کرنے کےلیے اب تصوف کا ڈول ڈالا گیا ہے۔
غامدی منہج فکر درحقیقت اس تصور حیات کا حامل ہے کہ دین کوئی مستقل شے نہیں ہے بلکہ ہر دور کے اعتبار سے دین کو تبدیل ہونا چاہیے. یہ خاص تجدد پسندانہ سوچ ہے. مغرب میں اسی فکر نے روایتی مسیحیت کی ڈائینامکس کو مکمل طور پر تبدیل کرکے رکھ دیا تھا . اسی کے نتیجہ میں تحریک تنویر کے دوران پروٹیسٹنٹ اور بعد میں کیلونسٹ اور پھر مارمونک چرچ وجود میں آئے. بعد ازاں جدت پسند مسیحیت نے ان تمام امور کو جائز قرار دے دیا کہ جن کی مخالفت خود مسیحی مصادر سے ہوتی تھی۔
جو اس عنوان پر مطالعے کے خواہاں ہیں وہ Christian reconstructionism کا تفصیلی مطالعہ کریں تو ان پر اس فنامنا کے تاریخی اثرات واضح ہوں گے. مسیحی ری کنسٹرکشن کے یہ اثرات صرف مذہبی نہیں تھے، بلکہ اس کے سیاسی دائرے بھی تھے ، جیسے جان لاک کی سیکولر بادشاہت وغیرہ، یہ بھی ایک مستقل مطالعہ ہے۔
اس کے بعد دور آتا ہے مسیحی جدیدیت کا . یہ ری کنسٹرکشن کے بعد کا دور ہے ، اس حوالے سے اجمالی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے
Christian Modernism, also known as Liberal Christianity, is a theological movement that emerged in the 19th and 20th centuries, seeking to reconcile Christian faith with modern knowledge, science, and ethical values. It emphasizes reason and personal experience over strict adherence to traditional interpretations of the Bible and church doctrine.
اس کا بانی الفریڈ فرمین ہے. اس کے افکار کی روشنی میں بھی اس فنامنا کو بہتر انداز میں سمجھا جا سکتا ہے . اس کی کتاب The Gospel and the Church ایک انتہائی دلچسپ مطالعہ ہے. مشرق میں چونکہ استشراقی طرز فکر استعمار کے ساتھ آئی، اس کے اولین متاثر سرسید احمد خان تھے، اور انہوں نے بہت سی فکری بنیادیں مسیحی جدیدیت سے لی تھیں، اس لیے بر صغیر کے مستغرب طبقے کا اگر علمی مطالعہ کرنا ہو تو اسی تناظر میں کیا جائے گا۔
غامدی صاحب کے تصور ری کنسٹرکشن کی بنیاد یہ ہے کہ دین کو عصر حاضر کے مطابق بنانے کے لیے دینی فکر میں ضروری تبدیلیاں کی جائیں گی، یعنی دینی فکر کوئی مستقل شے نہیں بلکہ عصر حاضر ایک مستقل عنوان ہے. دین اس درجہ الاسٹک ہے کہ اس کا رخ موم کی ناک کی طرح کسی جانب بھی موڑا جا سکتا ہے. چونکہ غامدی صاحب کے نزدیک دین کوئی سوشیو پولیٹیکل یعنی عمرانی اور سیاسی زاویہ رکھتا ہی نہیں، اس لیے دین صرف چند نظریات اور رسومات تک محدود ہے. چونکہ ان کے نزدیک عصر حاضر میں اتمام حجت ممکن ہی نہیں اور ہندو ، سکھ ، مسیحی سب ہی جنتی ہو سکتے ہیں، ہدایت صرف اسلام تک محدود نہیں، اس لیے دین ان کے نزدیک ایک عقیدہ نہیں بلکہ ایک فلسفہ اور نظریہ بن جاتا ہے، جبکہ روایت پسند دینی فکر کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ ہر دور کو دین کے مطابق تشکیل دیا جائے۔
یہی وہ بنیادی فرق ہے کہ جو غامدی منہج فکر اور روایتی دینی فکر کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے. اس سے ہٹ کر غامدیت کے تمام عنوانات ذیلی حیثیت رکھتے ہیں، اور عصر حاضر میں ایک طالب علم غامدی مہنج فکر کے حقیقی مزاج کو اسی طرز مطالعہ سے سمجھ سکتا ہے۔
تبصرہ لکھیے