ہم لوگ دو انتہاؤں پر کھڑے ہیں۔ ایک طرف وہ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ذہنی بیماریوں کا تعلق صرف دین سے دوری سے ہے اور علاج صرف نماز و اذکار سے ہی ممکن ہے۔ دوسری طرف وہ ہیں جو سائیکاٹری کو محض کیمیکل پر مبنی علاج سمجھ کر روحانیت سے مکمل لاتعلقی کو ہی شفاء سمجھتے ہیں۔ مگر حقیقت ان دونوں کے بیچ میں ہے۔
میری گزشتہ تحریر پر کچھ سوالات اٹھائے گئے ہیں، جس کیلئے یہ تحریر ضروری ہے. آئیں آپ کو اپنی ہی کہانی سناتا ہوں. ابا جی کی وفات ہوئی تو صرف دو دن میں میری حالت بہت خراب ہو گئی. نیند مکمل اڑ چکی تھی چڑچڑا پن اور افسردگی. بلڈ پریشر ہائی. سارے کہنے لگے کہ مسجد جاؤ. مجھے شدید غصہ. بھوک ختم. اللہ بھلا کرے میرے ایک ڈاکٹر دوست کا. انھوں نے مجھے فوری طور پر ڈاکٹر سعید الرحمان جیسے ایک بہترین سائیکاٹرسٹ کی طرف ریفر کیا. ایک باریش اور جدید دور کا انسان. انکی مختلف ادویات کیساتھ صرف ڈیڑھ ہفتہ علاج سے میں بالکل ٹھیک ہو گیا .
انھوں نے علاج کیساتھ ایک خوبصورت مشورہ دیا تھا کہ قاری ادریس کی تلاوت کردہ سورت الرحمن سنیں جہاں دل بیزار ہونے لگے فوراً بند کر دیں. ذہنی صحت، بالخصوص ڈپریشن، انگزائٹی اور بائی پولر جیسی بیماریاں صرف خیالات کا کھیل نہیں بلکہ دماغی کیمیکلز میں گڑبڑ کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اور دماغ، انسان کے جسم کا سب سے پیچیدہ اور نازک عضو ہے۔ اس کا علاج بھی اسی نزاکت اور سمجھ بوجھ سے کیا جاتا ہے۔ آئیے اس علاج کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں:
فرض کریں آپ شوگر کے مریض ہیں۔ ڈاکٹر آپ کو دوا دیتے ہیں مگر ساتھ کہتے ہیں کہ میٹھا کم کریں، روزانہ چہل قدمی کریں، نیند پوری لیں، سٹریس نہ لیں۔ آپ کا علاج صرف دوا سے نہیں بلکہ طرزِ زندگی کی تبدیلی سے بھی مکمل ہوتا ہے۔ یہی اصول سائیکاٹری میں بھی لاگو ہوتا ہے. نفسیاتی بیماری کا علاج دراصل لائف سٹائل کی تبدیلی کا نام ہے.
جب کوئی مریض کسی ماہرِ نفسیات (سائیکاٹرسٹ) کے پاس جاتا ہے تو ڈاکٹر سب سے پہلے شارٹ ٹرم ریلیف کے لیے بعض اوقات دیگر ادویات کے ساتھ بینزودیازیپین جیسی معاون دوا دیتا ہے تاکہ مریض کی فوری بے چینی اور پینک کا سامنا کچھ کم ہو مگر یہ دوا عارضی ہوتی ہے اور چند ہفتوں میں بند کر دی جاتی ہے۔
اس کے بعد اصل اور طویل المدتی علاج شروع ہوتا ہے جو اینٹی ڈپریسنٹس (SSRI) یا اینٹی سائیکوٹک ادویات کے ذریعے ہوتا ہے۔یہ دوائیں دماغ کے ان کیمیکلز کو متوازن کرتی ہیں جن کے بگاڑ سے انسان اپنی ذات سے بیزار ہو جاتا ہے۔ یہ عمل ایک دن، ایک ہفتے یا ایک مہینے کا نہیں ہوتا۔ بعض اوقات مہینوں بلکہ یہاں تک کہ سالوں پر محیط ہو جاتا ہے۔ مگر جیسے جیسے دوا اثر کرتی ہے، مریض کی کیفیت سنبھلنے لگتی ہے۔ زندگی کی طرف واپسی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ اور تب ڈاکٹر آہستہ آہستہ دوا کی مقدار کم کرتا ہے، صرف ایک دوا پر لاتا ہے، اور ساتھ میں نیورو سپلیمنٹس دیتا ہے تاکہ دماغی صحت مستحکم رہے۔
یہ ہے سائیکاٹری کا سائنسی، منظم اور مرحلہ وار علاج۔ اس میں جلدبازی یا جذبات کی نہیں، عقل، صبر اور حکمت کی ضرورت ہوتی ہے۔اب بات کرتے ہیں نماز کی جو بعض لوگ یا تو مکمل طور پر رد کر دیتے ہیں یا صرف اسی کو کافی سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز ایک روحانی تھراپی ہے جیسے کمر درد میں ادویات کے ساتھ فزیوتھراپی کے ذریعے پٹھے بہتر ہوتے ہیں ویسے ہی نماز انسان کی روحانی کشمکش کو تسلی دیتی ہے۔ جو شخص سجدے میں جا کر رو لیتا ہے وہ اپنے اندر کے غبار کو باہر نکالتا ہے۔
سائیکالوجی میں اسے کیاتھارسس (Catharsis) کہتے ہیں یعنی احساسات کا اخراج۔نماز کے ساتھ ساتھ اذکار، قرآن کی تلاوت، استغفار، درود شریف یہ سب وہ پرسکون کرنے والے عمل ہیں جو مریض کو اپنی بیماری سے لڑنے کی اندرونی طاقت دیتے ہیں۔ اسی لیے اکثر ماہرِ نفسیات مریض کو کہتے ہیں:
"نماز ضرور پڑھیں۔ یہ علاج کا حصہ ہے۔"
مگر یہ بات بھی اہم ہے کہ نماز کو زبان سے زبردستی مسلط نہ کیا جائے۔ مریض اگر ابتدا میں نماز نہ پڑھ سکے تو اسے مجرم نہ سمجھا جائے۔ اس کا ذہن وقتی طور پر ایک طوفان میں پھنسا ہوتا ہے۔ خودکشی پر آمادہ شخص کو محبت، تسلی اور وقت کی ضرورت ہے وعظ کی نہیں. سائیکاٹری میں کامیاب علاج وہی ہوتا ہے جو دوا، دعا، پرہیز، مثبت طرزِ زندگی، اور روحانیت ان سب کا حسین امتزاج ہو۔ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ نماز، دوا کی دشمن نہیں بلکہ دوست ہے۔ دوا کے ساتھ دعا وہ طاقت ہے جو شفا کو جلدی کر سکتی ہے اور جب شفا آ جائے تو شکر کا پہلا سجدہ وہ سب سے خوبصورت ہوتا ہے۔
پس معاشرے کو چاہیے کہ ان دونوں انتہاؤں کو چھوڑ کر ایک معتدل راستہ اپنائے۔نہ سائیکاٹری کو کفر سمجھے، نہ نماز کو بیکار۔ بلکہ دوا کو جسم کی غذا اور نماز کو روح کی غذا مانے۔ یہی وہ توازن ہے جو نہ صرف ذہنی بیماریوں سے نجات دلاتا ہے بلکہ انسان کو خود اپنی ذات سے محبت کرنا سکھاتا ہے۔
تبصرہ لکھیے