ہوم << اہل غزہ کی مدد صرف فرشتے کرسکتے ہیں! شہزاداحمدرضی

اہل غزہ کی مدد صرف فرشتے کرسکتے ہیں! شہزاداحمدرضی

اکیسویں صدی شاید دنیائے تاریخ کی سب سے بدقسمت صدی ہے جس کا ایک ایک دن خون میں ڈوبا ہوا ہے۔ اور شاید اس سے بھی زیادہ بدقسمت غزہ کے باسی ہیں جن کی زندگی کا ایک ایک دن لاشیں اٹھانے، بے بسی کے آنسو بہانے اور انسانی حقوق کے نام نہادعلمبرداروں کے فیصلوں کے انتظار میں گزرتا ہے۔وہ بدقسمت اس انتظار میں بھی ہیں کہ اگر اقوام متحدہ نہیں توپچاس سے زیادہ مسلمان ممالک کی نمائندہ تنظیمOICہی ان کی چیخ و پکار پر کان دھرے گی۔ان پر ہونے والے ظلم و ستم کو روکے گی۔افسوس صد افسوس! ایسا ہو نہیں رہا۔ وہ طاقتور حکمران جو اپنے مخالفین کی لاشیں تک غائب کردیتے ہیں، جن کے کروفرا ور تکبر کی نہ کوئی حد ہے اور نہ اختتام !وہ گردنیں جھکائے بے بسی کی بدترین تصویر بنے غزہ کے نہتے، مرتے سسکتے لوگوں کو یکھ رہے ہیں۔ یا شاید یہ حکمران اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ یہ مناظر انہیں رتی برابر بھی تکلیف نہیں دیتے۔ مصلحتوں کے مارے، اقتدار چھن جانے کے خوف سے ڈرے سہمے یہ حکمران امریکہ اور اس کے گاڈفادر(صہیونی ٹولے) کے سامنے سرخم تسلیم کرچکے ہیں۔انہیں خوف ہے کہ اگر انہوں نے امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد(اسرائیل) کے سامنے ذرا سا بھی احتجاج کیا تو ان کے ملک میں بغاوتیں شروع کرادی جائیں گی اور ان کا’’ پشتینی اقتدار‘‘ چھن جائے گا۔ دوسری طرف کسی کو ڈر ہے کہ اگر اس نے ٹکر لینے کی کوشش بھی کی تو اس کی نیم زندہ و نیم مردہ معیشت مکمل طورپر تباہ کردی جائے گی۔ مصلحتیں ہی مصلحتیں ہیں اور ڈر ہی ڈر ہے!

آپ بے شک حماس کو برا بھلا کہہ لیں، آپ ان کے طرز عمل سے بھی بھر پور اختلاف کرلیں لیکن اہل غزہ سے تو منہ نہ موڑیں۔ غزہ رومن اکھاڑہ بن چکا ہے جہاں انسانوں پر بھیڑیے اور دوسرے درندے چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ نسل کشی کی ایسی بدترین مثال چنگیز خان یا ہلاکو خان کی فوجوں نے بھی قائم نہ کی تھیں جو صہیونی درندے غزہ میں قائم کررہے ہیں۔ نہ کوئی سر سلامت ہے تو نہ کوئی عمارت اپنی بنیادوں پر قائم رہ گئی ہے۔ سسکتی روتی عورتیں، سہمے بچے ، لاچاربوڑھے اور زخمی نوجوان اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھائے پھر رہے ہیں۔۔ یہ آج کے غزہ کی منظر کشی ہے۔

صہیونی پوری انسانیت کے دشمن ہیں۔ انہوں نے اپنی روحیں Marloweکے کردار Doctor Faustusکی طرح شیطان کو بیچ دی ہیں۔ ان کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ یہ شیطان کے چیلے پوری دنیا پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔اہل غزہ پر صہیونیوں کے مظالم پوری انسانیت کے منہ پر طمانچے کے مترادف ہیں۔ اسی لیے تو جن کے دل میں احساس ہے وہ اس پر احتجاج کرر ہے ہیں۔ امریکی یونیو رسٹیوں کے طلبہ ہوں یا یورپ کے کچھ باضمیر لوگ، وہ سب اہل غزہ پر ہونے والے مظالم پر چیخ رہے ہیں۔دوسری طرف ہم کیا کررہے ہیں؟ ہم یقینا اپنی باری کا خاموشی سے انتظار کررہے ہیں۔ کیا صہیونی درندوں کی منزل صرف بیت المقدس ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ ان کی منزل اس سے کہیں آگے ہیں۔وہ اپنی ضد پر قائم ہیں اور ہم شترمرغ کی طرح ریت میں سر دبا کر یاکبوتر کی طرح آنکھیں بندکرکے سوچ رہے ہیں کہ شکاری نے ہمیں دیکھا نہیںہے۔ جو آج اہل غزہ پر بیت رہی ہے وہ ہم پر ضرور بیتے گی۔ ہمیں اپنے حقیقی دشمن کا اندازہ بھی تھا اور اس کے مکروہ عزائم سے بھی واقف تھے لیکن ہم نے اس سے بچنے کی تدبیرنہ کی۔ ہم عیش و عشرت میں غرق رہے اور ہمارا دشمن اپنی چالوں میں مگن رہا۔ سائنس و ٹیکنالوجی ہمارے ہاں ہمیشہ شجر ممنوعہ کی طرح رہے اور وہ آج سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہماری سوچ سے بھی کہیںآگے جاچکا ہے ۔اسے ہمیں مارنے کے ہزاروں گُن آتے ہیں اور ہمارے پاس اپنے بچاؤ کی ایک بھی تدبیر نہیں ہے۔ چلیں آئیں ہم مل کر دعا کرتے ہیں کہ دشمنوں کی توپوں میں کیڑے پڑ جائیں یا آسمان سے ابابیل اتر کر وہ فریضہ بھی سرانجام دے دیں جو ہمارے ذمہ ہے۔ اس سے زیادہ کرنے کی نہ ہم میں ہمت ہے اور نہ قابلیت۔اور اہل غزہ سے ہماری درخواست ہے کہ وہ دعا کریں کہ ان کی مدد کے لیے فرشتے اتریں کیونکہ ان بے حس و مفاد پرست حکمرانوں سے تو کوئی مدد کی امید ہے نہیں۔