ہوم << زندگی پھول ہے اسے مسکرانے دو -فخرالزمان سرحدی

زندگی پھول ہے اسے مسکرانے دو -فخرالزمان سرحدی

پیارے قارئین! زندگی فلسطین میں کس قدر اداس ہے گویا انسانیت کے لیے درد کی کسک محسوس ہونی چاہیے۔سرزمین انبیاء کس قدر اداس کہ شادمانی کا تصور بھی ناپید ۔ زبانِ شاعر بھی کہنے پر مجبور: دشت و دمن لہو لہو٬سارا وطن لہو لہو

غزہ والوں پر کیا گزر رہی ہے؟یہ سلگتا سوال انسانی حقوق کے علم برداروں کے لیے کافی ہے۔اسرائیل کے ظلم و ستم سے غزہ کے مسلمانوں کی زندگی کس قدر اداس ہے۔ یہ بات تو اسرائیل اور انسانی حقوق کے علم برداروں کو جان لینی چاہیے کہ ”زندگی پھول ہے اسے مسکرانے دو“
اللہ کریم کی پیدا کردہ مخلوق سے پیار اور زندگی سے محبت ہی تو امن کی علامت ہے۔یہ بات تو جان لینے کی ضرورت ہے کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں ہوتی مگر جب حق نہ ملے تو جنگ کرنا ہی پڑتی ہے۔یہی المناک داستان فلسطینی مسلمانوں کی ہے عرصہ ستر سال سے حق مانگا جا رہا ہے لیکن بزور طاقت اس صدا کو خاموش کرنے کے لیے کون کون سا ستم نہیں روا رکھا جا رہا۔انصاف کے تقاضے تو یہی ہیں کہ غزہ کے مسلمانوں پر گزرنے والی درد ناک کہانی سنی جاۓ۔اسرائیلی مظالم روکے جائیں۔مذاکرات سے سلگتا مسئلہ حل کیا جاۓ۔

ظلم کی چکی میں پسنے والے انسان کس قدر قابل رحم ہیں۔دنیا کے جس گوشہ میں بھی کوئی درد مند انسان بستے ہیں۔آزمائشوں کے بوجھ برداشت کرتے چلے آرہے ہیں۔زندگی ان کی پریشان نظری کا شکار ہے۔اللہ کی رحمت ان پر ہو اور وہ بھی آزاد فضا میں سانس لے سکیں۔بارود کی تباہکاریوں سے زندگی تو خراب حال ہوتی ہے۔

زندگی ایک مقدس امانت ہے اسے اتنا خراب حال نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ تو پھول ہے اسے مسکرانے دینا چاہیے۔غزہ ہو کہ کشمیر انسانیت کی قدر اور احترام مدنظر رہنا چاہیے۔وقت کا تقاضا تو یہی ہے کہ انسانیت کی قدر کی جاۓ۔جو انسان حق مانگتے ہیں ان کے جائز حقوق دیے جائیں۔دنیا میں زخمی لوگوں کی صدائیں ضرور سننی چاہیں شاید کہ آپ کی دلجوئی سے زندگی شاداب ہو جاۓ۔تبسم اور مسکراہٹ کتنی قیمتی ہے اسے زندگی کے پھول کو مسکرانے کے لیے ہدیہ کرنا چاہیے۔انسان کی تخلیق تو درد کے واسطے ہوٸی ۔زخمی دلوں کے لیے مرہم کا اہتمام بھی تو ہونا چاہیے۔کائنات میں سب مخلوق اللہ کریم کا کنبہ ہے۔اس کے آرام و آسائش کاخیال رہے۔سوچ کے زاویے اس قدر بلند ہوں ان کی خوبصورتی سے زندگی مسکراتی رہے۔آدمیت کا احترام فقط یہی ہے کہ دوسروں کی عزت نفس کا خیال کیا جاۓ۔

مسلمان سب ایک ہوں تو دنیا میں ایک قوت بن سکتے ہیں۔وقت کا دریا ہے بہتا چلا جا رہا ہے۔اس لیے وقت کی قدر و منزلت کا احساس رکھنا چاہیے۔قوت کو زائل نہیں کرنا بلکہ عمل سے بکھری قوت کو یکجا کرنا چاہیے۔مٹی سے محبت اور انسانیت سے انس ہی تو سرشت انسان میں شامل ہے۔جو انسانیت پر بم برسا کر اور زہرناک ہوا سے قتل کرنے کے خوگر ہیں کیا ان کو یہ گمان نہیں کہ وہ بھی دفن ہو جائیں گے۔زندگی سے تو اللہ کی کائنات مسکراتی ہے۔اس لیے بچوں کو ہنسنے کھیلنے دینا چاہیے۔بچوں کی پیار بھری باتیں بزور طاقت نہیں روکنی چاہیں۔یہ گلشن ہستی کسی بھی دم رک نہیں سکتی۔یہ سلسلہ ہی کچھ اور ہے۔آج انسانیت کی آواز میں اک سوز اور درد ہے لیکن نہ جانے اتنی خاموشی کیوں ۔بقول شاعر:-

دنیا کو ہے پھر معرکہ روح بدن پیش
تہذیب نے درندوں کو پھر ابھارا