بیٹھک میں چند دوستوں کے ساتھ نشست جاری تھی اور گفتگو کا موضوع بے روزگاری تھا۔ اکرم علی صاحب جو کہ قریبی سکول میں ٹیچر ہیں، بار بار تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے اور بےروزگاری کا حل تعلیم و شعورکا حصول بتلاتے۔ ہمیں کبھی تو اُن سے اختلاف ہوتا اور کبھی ذہن اُن کے دلائل پر لاجواب ہو جاتا۔ حاجی صاحب بھی شریکِ محفل تھے۔ موصوف کافی تجربہ کار تاجر ہیں اور قریبی بازار میں اُنک ی دکانیں ہیں۔ حاجی صاحب علم و ادب سے بہت زیادہ لگائو رکھتے ہیں۔ معاشرتی اصلاح کے موضوع پر اُن کی تجاویز کافی حیرت انگیز اور قابل ِ تحسین ہوتی ہیں۔ اس وقت بھی وہ ہمیں روزگار کے لیے درکار جدوجہد اور بےروزگاری کے اسباب سے متعلق اپنی رائے دے رہے تھے۔ اسی دوران اشرف بیٹھک میں داخل ہوا۔ وہ ٹھیلے پر سبزی لیے محلے کی گلیوں میں گھومتا ہے۔ اور شام سے ذرا پہلے واپس لوٹتا ہے۔ سبزی بیچنا اُس کا ذریعہ معاش ہے۔ اُس نے اپنے کاندھے سے صافہ کھینچ کر چہرے سے گرد صاف کی اور صافہ واپس کاندھے پہ ڈال دیا۔ ــ’’منشی صاحب! کیسے مزاج ہیں‘‘ سب لوگوں سے علیک سلیک کے بعد اشرف نے ہمیں مخاطب کیا۔ ’’ الحمد للہ ۔اشرف میاں کیسا گزرا آج کا دن‘‘ ہم نے بھی جوابا مصافحہ کرتے ہوئے اُس سے پوچھا۔ ’’او منشی صاحب۔ میرا ہر دن ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ جب ٹھیلہ خالی ہوتا ہے تو میرا دن ختم ہوتا ہے۔ ہاں البتہ کبھی جلدی اور کبھی دیر سے‘‘۔ اُس نے جوابا ہمیں فلسفہ سُنایا۔ جس کی ہم نے حسب توفیق داد دی۔
اکرم علی صاحب نے ایک بار پھر تعلیم کی اہمیت پر ایک جملہ کہا تو اشرف بولا۔ ’’ماسٹر جی یہ تعلیم ہے تو بہت بڑی نعمت اس میں شک نہیں۔ لیکن اسے بھی ہمارے ارباب اختیا ر نے ایک خاص طبقے کے لیے محدود کر دیا ہے‘‘۔ ہم اُس کی اس بات پر چونک گئے تھے، کہ اشرف نے مزید کہا۔ ’’دیکھیں ناں ماسٹر جی، اب میں نے اپنے زمانے میں آٹھ جماعتیں پڑھ کر اپنے والد کی جگہ یہ سبزی بیچنا شروع کی اور آج تک وہی کر رہا ہوں۔ مجھے مزید پڑھنے کا موقع نہ مل سکا لیکن میں نے اپنے بچوں کو تعلیم دلائی ہے۔ بڑے دونوں بچے سولہ جماعتیں پاس کر چکے ہیں۔ چھوٹا بھی گیارہویں جماعت میں ہے لیکن آپ یہ دیکھیں کہ میرا بیٹا اپنا آبائی پیشہ اپنانے کو تیار نہیں۔ اُس کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی بھی دفتری عہدہ پر کام کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ لیکن ہمارے رہنمائوں نے اس کے لیے کسی دفتر تک رسائی کا راستہ نہیں چھوڑا۔ پہلے تو مطلوبہ تعلیم، پھر امیدواروں کا امتحان اور پھر انتخاب کے لیے علاقائی تقسیم اور اس کے بعد نتیجہ ندارد۔ یعنی جگہ جگہ امتحان اور ہر امتحان کے لیے علیحدہ فیس۔ پھر اگر امتحان پاس بھی ہو جاوے تو انٹرویو میں معیار پر پورا نہیں اترتے وغیرہ وغیرہ۔ ماسٹر جی ! جو شخص سولہ سال کی تعلیم کے مختلف امتحان پاس کر چکا ہے، کیا وہ انٹرویو کا واجبی امتحان پاس نہیں کر سکتا۔ لیکن ہمارے ہاں کی جانے والی بندر بانٹ میں وہی امیدوار کامیاب ہے جو جگہ جگہ کے امتحان کی فیس کے علاوہ افسر شاہی اور سیاسی تعلقات کا بھی خوب اثاثہ رکھتا ہو۔‘‘ اب اس کی بات ہماری سمجھ میں آئی۔ ایک نوجوان اگر تعلیم یافتہ ہے تو اُس کی تعلیم اُسے غیرتعلیم یافتہ ہجوم میں منفرد تو کرے۔
یہاں اکرم علی صاحب نے بےچارگی کے عالم میں اشرف کو اور پھر باری باری ہم سب کو دیکھا اور گلو گیر آواز میں بولے۔ ’’ہاں اشرف میاں! بات تمہاری بھی ٹھیک ہے، لیکن تعلیم کا ہونا انسان کو شعور اور سمجھ جیسی عظیم صلاحیت دیتا ہے جبکہ تعلیم کا فقدان انسان سے یہ دونوں چیزیں چھین لیتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے لیے تعلیم کو غیرضروری سمجھتے ہیں اور اس کے مقابلے میں سند اور ڈگری کو اہم خیال کرتے ہیں‘‘۔ اشرف کہنے لگا۔’’ماسٹر جی ! آپ نے درست کہا لیکن آج کا نوجوان جب یہ دیکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امیر و غریب سب کو ایک جیسا دماغ اور ایک جیسے والدین دیے ۔جو ہر حالت میں اپنے بچوں کی خوشی اور راحت چاہتے ہیں مگر ہمارے معاشرے کے صاحب ثروت لوگ آپ کو اعلیٰ عہدوں پر نزاکت و نفاست کی زندگی گزارتے ملیں اور مجھ جیسے غریب کے بیٹے کے لیے اپنے باپ کا سبزی والا ٹھیلہ منتظر ہو، جبکہ اُمراء کے بچوں نے بھی وہی ڈگری حاصل کی جو ہمارے بچوں نے لی ہے تو پھر کیونکر ہمارے بچے بے وزگاری کی زد میں رہیں؟۔ ماسٹر جی! تعلیم کے ہوتے ہوئے ہم لوگوں کی پسماندہ زندگی ہمارے با اختیار طبقہ کی دین ہے۔‘‘ اُس نے بات مکمل کی۔ سب کو خاموش پا کر پھر بولا۔ ’’ اگر ایسا ہی ہونا ہے تو پھر کیوں نہ فرنگیوں کی طرح ہر شے میں طبقاتی تقسیم رکھی جائے۔ امیروں کے لیے تعلیم ، ڈگری اور عہدے الگ ہوں اور غریبوں کے لیے الگ۔ تاکہ غریب عہدہ کا امیدوار صرف غریب ہی ہو۔ اب تو سب کے سب امراء کے زیرِ دست ہیں۔ چاہے کچھ ہو جائے امیدوار وہی کامیاب ہوتا ہے جو اربابِ اختیار کا منظورِنظر ہوتا ہے۔ جب میرا بیٹا اپنے ہی طبقے کی تعلیم لے گا تو ممکن ہے وہ یہ ٹھیلہ بخوشی سجا لے کہ ہماری قابلیت یہی تھی لہذا یہی ہمارا کام بھی ہے‘‘۔ اشرف کی بات سن کر ہمیں واقعی اپنے افسران کے رویے پر افسوس ہوا۔ ایک غریب آدمی اپنے دل میں کیا کیا دکھ لیے پھرتا ہے اس کا اندازہ ہمیں اشرف کی اس گفتگو سے ہوا جو اُس نے اپنے بچوں کی بےروزگاری کے غم میں کی۔ اکرم علی صاحب اُس کے اعتراضات کے جواب میں خاموش رہے۔ افسردگی میں حاجی صاحب نے اشرف کو حوصلہ دیا اور کہا کہ ’’ اشرف بھائی! یہ تو ہمارے معاشرے کا ناسور ہے۔ ہمیشہ بااثر لوگ خوشحال رہتے ہیں اور عام آدمی کے لیے مشقتیں اور محنتیں مقدر ہوتی ہیں۔ تم حوصلہ رکھو اللہ خیر کرے گا‘‘۔ ہم نے بھی اشرف کی روداد سن کر کافی دُکھ اور افسوس اپنے اندر محسوس کیا۔ اُس کو تسلی دی اور کہا۔ ’’اشرف میاں ! اُمید پہ دنیا قائم ہے۔ ہمارے ذمہ تو محنت اور خلوص کے ساتھ کوشش کرنا ہے۔ نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دو۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو تو غائبانہ ذرائع سے امداد ہوتی ہے۔ اللہ سے بھلائی اور کامیابی کی دعا کرو انشاء اللہ مایوسی دور ہو جائے گی۔حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ اور پھر ان لوگوں کے رویے تو واقعی نامناسب ہیں۔ ہر آدمی کسی نہ کسی طرح ان جیسے لوگوں کا ستایا ہوا ہے۔ یہ تو ہمیشہ سے اسی طرح ہیں۔
تبصرہ لکھیے