پروفیسر خورشید احمد قریشی صدیقی مرحوم کا نام اسی (80) کی دہائی کے نصف ثانی میں عنفوانِ شباب ہی میں نظروں سے گزرا . ان کی کتاب " اسلام اور سوشلزم" جسے مسلم ویلفیئر سوسائٹی جموں و کشمیر نے شائع کیا تھا ، ہماری مقامی درس گاہ میں موجود تھی - یہ مطالعہِ کتب کا عبوری دور تھا، لہذا ہر سامنے آنے والی چیز کو پڑھنے کی دُھن سوار رہتی تھی. میں اس کتاب کو گھر لے آیا ، لیکن اول تو کتاب کا موضوع ہی میری عمر اور فہم کے اعتبار سے دقیق تھا ، بھلا اس زمانے میں اسلامی معیشت ، سوشلزم اور معیشت کے عالمی تصور سے متعلق باتیں میری سمجھ میں کہاں آتیں؟ پھر کتاب بھی خاصی ضخیم تھی ، صفحہ صفحہ پر جدولیں نقل کی گئی تھیں، جن میں لاریب بڑی عمدہ معلومات تھیں، لیکن میری ذہنی استعداد سے بالاتر تھیں. چند ہی صفحات پڑھ کر محسوس ہوا کہ یہ بھاری پتھر مجھ سے نہیں اٹھایا جائے گا، لہذا حجر اسود کی مثل اسے بس چُوم کر ہی چھوڑ دیا ، لیکن پروفیسر مرحوم کا نام لوحِ ذہن پر نقش ہوگیا .
برسوں بعد جب ترجمان القرآن کی ترسیل ہمارے یہاں ممکن ہوئی، اور سرورق پر بحیثیتِ مدیر " پروفیسر خورشید احمد" کا نام نظر سے گزرا تو درونِ قلب اسے پڑھنے کا شوق پیدا ہوا ، یوں میں ترجمان القرآن کے مستقل قاری کی حیثیت سے " خورشیدِ دیدہ ور کی تازہ رو کرنوں" سے روشنی حاصل کرنے کے ایک نئے سفر پر گامزن ہوا.
ترجمان القرآن جب بھی آتا تو سب پہلے" اشارات" کی ورق گردانی ہوتی جو ( بیچ بیچ میں مستثنیٰ کے ساتھ) مستقل طور پر پروفیسر صاحب مرحوم کے قلم ہی کے مرہونِ منت رہتے . یہ اشارات کیا تھے ؟ بظاہر ترجمان القرآن کا " اداریہ" - لیکن ان میں موجودہ زمانے میں اسلامی معیشت ، سیاست ، سماجی حالات ، اسلامی دنیا کے مسائل ، پڑوس ملک کے سیاسی کوائف ، مسلمانوں کے تعلیمی نظریات ، بدلتی دنیا کے تقاضے ، امریکہ و یورپ کا اسلامی نظام سیاست و معیشت سے متعلق نظریہ اور رویہ ، ملّی مسائل کا تجزیہ اور حل غرض جدید دور کے تازہ مسائل اور فلسفہ جات نیز علوم و معارف کا ایک جہانِ نو ان اشارات میں موجود رہتا . امر واقعہ یہ ہے کہ ایک مدت تک دور جدید کے مسائل سے میری آگاہی کا اکلوتا حوالہ یہی اشارات ہوتے تھے.
پروفیسر خورشید احمد مرحوم نے ایک اسلامی مفکر ، ماہرِ معاشیات اور جدید موضوعات پر علمی و فکری کتابوں کے بین الاقوامی مصنف کی حیثیت سے شہرت پائی لیکن میرے نزدیک وہ اردو زبان کے ایک کہنہ مشق ادیب بھی تھے، یہ پہلو ان کے دیگر علمی پہلوؤں کے سامنے کچھ دب سا گیا . اگر میں یہ کہوں کہ خاص اس جہت سے وہ مولانا مودودی رحمہ اللّٰہ کا مثنی تھے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا، بلکہ میرا ماننا ہے کہ مولانا مودودی مرحوم کے گہر بار قلم کی خصوصیات ان کے بعد اگر کسی میں پائی گئیں تو وہ پروفیسر خورشید احمد تھ . جب ان کی کتاب " ادبیات مودودی" نظر سے گزری تو احساس ہوا کہ پروفیسر صاحب نے مولانا مودودی مرحوم کی کتابوں سے استفادہ و استفاضہ کرکے اپنے قلم میں ادبیت کی کتنی گہری چاشنی پیدا کر لی ہے. اس کتاب کا مقدمہ 87 صفحات پر مشتمل ہے جس میں مولانا مودودی رحمہ اللّٰہ کے ادیبانہ مقام کو ایک بالغ نظر نقاد کی حیثیت سے محکم دلائل سے ثابت کیا ہے، اور اُردو ادب پر عالمی تحریکات کا جو اثر مرتب ہوا اس کی نشان دہی کی ہے. پروفیسر صاحب اس بات پر اربابِ اردو سے کافی شاکی ہیں کہ انھوں نے اسلامی ، علمی، فکری موضوعات پر لکھنے والے اہل قلم و فکر ادیبوں کو اپنا قرار واقعی مقام دینے میں حد درجہ بخل کا اظہار کیا ، لکھتے ہیں:
" سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کہ ادب کے نقادوں نے اُردو کی علمی نثر سے بحیثیتِ مجموعی بے التفاتی برتی ہے. نثر کی ان اصناف کو ادب میں شامل کیا ہے جن کا تعلق افسانہ ، ناول ، ڈرامہ ، انشائیہ اور طنزو مزاح وغیرہ سے ہے ،لیکن مقالہ اور سنجیدہ علمی مضامین کو ( محدود ادبی تنقیدی مقالات کو چھوڑ کر) شعوری یا غیر شعوری طور پر ادب سے خارج تصور کیا گیا ہے. ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بحیثیت مجموعی سنجیدہ علمی نثر کو ادب کے زمرے میں شامل ہی نہیں کیا گیا اور اگر کیا گیا ہے تو محض وزنِ بیت کے لیے. اگر دنیا کے دوسرے ادبی حلقوں میں بھی اسی تنگ نظری اور یک رخے پن کا اظہار کیا جاتا تو جہانِ علم و ادب پورے ادبی ورثہ کے تقریباً ایک تہائی سے محروم ہو جاتا " ( ص19)
1999 میں جب مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللّٰہ کی وفات ہوئی تو میں نے ان پر ایک مضمون لکھا جو اس وقت یہاں کے ایک مقامی اخبار غالباً " ندائے مشرق" میں شائع ہوا تھا. اس کے کچھ دنوں بعد ترجمان القرآن کا نیا شمارہ موصول ہوا تو اس میں پروفیسر خورشید احمد مرحوم کا ایک مضمون اشارات کے متذکرہ بالا کالم میں مولانا علی میاں ندوی مرحوم پر شامل تھا. میری خوشی کی انتہا نہیں رہی، کیونکہ جو باتیں میں نے طالب علمانہ طور پر کہی تھیں، تقریباً وہی مضمون پروفیسر خورشید صاحب نے عالمانہ اور مفکرانہ انداز میں بیان کیا تھا .مجھے اطمینان ہوا کہ میں نے مولانا علی میاں صاحب مرحوم کو سمجھنے میں کوئی غلطی نہیں کی تھی. پروفیسر صاحب کا یہی مضمون پھر اربابِ ندوہ نے تعمیرِ حیات کے " علی میاں نمبر" میں بھی شائع کیا .
پروفیسر صاحب نے یوں تو معیشت میں ڈاکٹریٹ کیا تھا، چنانچہ اس شعبے میں ان کا نام برصغیر کے چوٹی کے ماہرینِ معیشت جیسے جسٹس ڈاکٹر تقی عثمانی اور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی وغیرہ کے ساتھ لیا جاتا ہے، لیکن ان کا دینی مطالعہ بھی غضب کا تھا. وہ جب بھی کسی موضوع پر لکھتے تحقیق کا حق ادا کرتے. ان کی تحریروں میں علمی گہرائی کے ساتھ ساتھ ادبی لطافت و شیرینی بھی ملتی تھی. ایوب خان کے دور میں وہ نو مہینے پابندِ سلاسل رہے تھے. انہوں نے ان ایام کی یاداشت " تذکرہ زنداں" کے نام سے لکھی جو منشورات نے 2009 میں شائع کی. اس کتاب میں عبارت کی روانی اور سلاست اپنی معراج کو پہنچ گئی ہے. اسلوب ایسا سہل کہ قاری کو اپنے اندر جذب کرلے لیکن اس کا احساس اسے اختتامِ کتاب پر ہی ہوگا. اپنے چھوٹے بھائی پروفیسر انیس کے نام جیل سے جو خط لکھے تھے ان کے تعارف میں لکھتے ہیں:
" پتہ نہیں گھر سے کاغذ کب آتا ہے اور کتنا ؟ لیکن اس کے باوجود انیس کو مخاطَب کرنے اور اس سے باتیں کرنے کا داعیہ اتنا قوی ہے کہ اس کو دبایا نہیں جاسکتا. اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے اپنے بھائی سے باتیں کیے بغیر چارہ نہیں. کچھ پتہ نہیں میری آواز اس تک پہنچتی ہے یا نہیں، یہ خط خط کبھی اسے مل بھی سکے گا یا نہیں؟ لیکن ان باتوں کی مجھے کیا فکر ؟ " بعد منزل نہ بود در سفر روحانی" - میں انھی چند کاغذوں کو لے کر باہر برآمدے میں ایک کونے میں بیٹھ جاتا ہوں اور اپنے بھائی سے باتیں شروع کر دیتا ہوں. ان کاغذوں کا اس سے بہتر مصرف اور کیا ہوسکتا ہے؟ میری آواز اس تک پہنچے نہ پہنچے ، لیکن اس طرح مجھے
اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا موقع مل جائے گا:
اے ساکنانِ کنجِ قفس ! صبح کو صبا
سُنتے ہیں جائے گی سوئے گلزار ، کچھ کہو
(ص 175)
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے انگریزی جریدے " پالیسی پرسپیکٹوز " ( policy perspectives ) سے ایک کتاب" آج کا مغرب اور مسلم دنیا: مباحث اور پالیسیاں " کے نام سے ترجمہ و انتخاب کی گئی. اس میں پروفیسر خورشید صاحب کے تین مضامین شامل ہیں (1) دہشت گردی اور امریکی پالیسی (2) جمہوری حقوق اور توہین آمیز خاکے - رد عمل کے لیے حکمتِ عملی (3) مغرب میں ابھرتا اسلام کا نیا ثقافتی منطقہ . یہ تینوں مضامین گہرے فکری ارتکاز کا زائدہ پیش کرتے ہیں - مؤخر الذکر مضمون میں ایشیائی ممالک سے یورپ کی جانب نقلِ مکانی کرنے والے مسلمانوں اور یورپ میں پیدا ہونے والی نئی مسلمان نسل کے ابھرتے ہوئے نئے ثقافتی منطقے پر عالمانہ گفتگو کی گئی ہے. درج ذیل اقتباس سے مضمون کا مجموعی ہیولیٰ سامنے آسکتا ہے:
" اسلام کے بنیادی اُصول و عقائد اگرچہ پوری دنیا میں یکساں ہیں مگر ان کا عملی اظہار مختلف خطوں میں مختلف انداز میں ہوتا ہے. مثال کے طور پر اسلام میں شادی کا بنیادی طریقہ فریقین کی رضامندی ہے اور اس کے بعد ایک معاہدہ ہے جو نکاح کہلاتا ہے. تاہم جنوبی ایشیا میں شادی کی تقریب کئی ایسی رسوم پر مشتمل ہوتی ہے، جو ہندو رواج سے لی گئی ہے جیسے مہندی ، مایوں اور بارات. اسی طرح دوسرے ثقافتی منطقوں میں نکاح کچھ دوسری قسم کی رسوم کے اہتمام کے ساتھ منعقد ہوتا ہے. مغرب کا اسلامی ثقافتی منطقہ چونکہ ایک نئی چیز ہے اور یہاں مسلم روایات ابھی پوری طرح متشکل نہیں ہوئی ہیں لہٰذا یہاں کئی معاملات اور مباحث ابھر رہے ہیں. " (ص204)
نظامِ تعلیم پر پروفیسر صاحب مرحوم کی ایک نہایت شاندار کتاب انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ہی نے کئی سال پہلے شائع کی. اس میں تعلیمی نظریات ، روایات اور مسائل پر گفتگو کی گئی ہے. بڑی شاندار کتاب ہے اور اس لائق ہے کہ ہر مسلمان استاد کو پڑھائی جائے ، " اساتذہ کی ذمہ داریاں" کے عنوان سے ایک باب میں اختلافِ رائے ہونے پر اساتذہ کا کردار اور رویہ کیا ہونا چاہیے؟ لکھتے ہیں :
" آپ کی نگاہ ہمیشہ اپنے مقصد پر ہونی چاہیے. چیزوں کو جانچنے کے لیے آپ کا پیمانہ یہ ہے کہ آپ کی گفتگو ، آپ کا کردار ، آپ کی کوششیں ، آپ کی منصوبہ سازی آپ کو اپنے مقصد اور اپنی منزل کے قریب لارہی ہے یا دور لے جارہی ہے. اگر اس پر نگاہ رکھیں گے تو پھر ان شاءاللہ اختلافِ رائے بھی اور احتساب بھی ہمیشہ حدود میں رہیں گے. " میں جو کچھ ہوں دوسرا اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا" ، شیطان بھی اس جذبے کے حامل افراد کی شاگردی اختیار کرنے کو تیار ہوجاتا ہے. اسی لیے آپ اپنے اتحاد کو تقویٰ اور احسان کی بنیادوں پر استوار کیجیے." ( ص 62)
پروفیسر خورشید صاحب کی شہرہ آفاق کتاب" اسلامی نظریہ حیات " 1963 میں شائع ہوئی اور بہت زیادہ پڑھی گئی. بعد میں انہوں نے اسے مزید مباحث و معلومات اور سہل اسلوب کے ساتھ تین حصوں (1) مذہب اور دور جدید (2) اسلامی فلسفہ حیات اور (3) اسلامی نظامِ حیات کے نام سے دوبارہ شائع کروایا. یہ تینوں کتابیں اپنے موضوع پر اگر قولِ فیصل نہیں تو کم ازکم " قولِ محکم" کا درجہ ضرور رکھتی ہیں. جدید دور میں اسلامی دعوت و تربیت کا کام کرنے والوں کو ان کے مطالعہ سے مفر نہیں.
پروفیسر خورشید صاحب مرحوم کا فکر و نظر اور علم و فہم آفاقی تھا جسے ہم کسی خاص ملکی یا تنظیمی دائرہِ سوچ میں مقید نہیں کر سکتے . انہوں نے جدید موضوعات پر لکھا لیکن کئی ایک برخود غلط اسکالرز کی طرح اپنے قارئین کو علمائے اسلام سے بدظن نہیں کیا. ان کا قاری کسی موڑ پر بھی اپنے اسلاف سے منحرف نہیں ہوتا بلکہ ان کے فکر و نظر سے اکتساب کرتے ہوئے جدید دنیا کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے. یہ پروفیسر صاحب مرحوم کی ایک بڑی خوبی تھی. انہوں نے جدید اسلامی تحریکات و رجحانات سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے لیے سیرت و کردار کی تعمیر کو اصل قرار دیا. اختر حجازی کی مرتب کردہ کتاب " تحریکی کارکن رزم گاہِ حیات میں" میں ان کی ایک تقریر " سیرت و کردار - تحریک اسلامی کی اصل قوت" کے عنوان سے سوال وجواب کی صورت میں شامل ہے. اس میں وہ کہتے ہیں:
" سیرت دراصل شخصیت کا دوسرا نام ہے. یہ فکر و عمل کی وہ کل کائنات ہے جو خیال و ارادہ ، جذبات واحساسات اور اعمال و عادات کے مستقل سانچوں سے عبارت ہو . تصورات ، احساسات اور اعمال میں مقصدی یک رنگی سیرت کی مظہر ہے. اسلامی سیرت زندگی کی اس کل شخصی کائنات پر صبغۃ اللہ کے غلبے سے رونما ہوتی ہے اور ایسی سیرت ہی کی تعمیر کی جدو جہد کا نام تربیت ہے. اس کو قرآن کی اصطلاح میں" تزکیہ " کہا جاتا ہے جو بعثتِ انبیاء کا ایک بنیادی مقصد رہا ہے " (ص101)
پروفیسر خورشید صاحب اس دُنیا سے یقینا چلے گئے جیسا کہ دنیا میں آنے والا ہر شخص جاتا ہے، لیکن ان کا علمی سرمایہ ہمیں اور ہماری آئندہ نسلوں کو علم و معرفت کی روشنی سے منور کرتا رہے گا، بشرطیکہ ہم اس روشنی کو حاصل کرنے کے لیے خود کو آمادہ کر پائیں.
تبصرہ لکھیے