مہذب دنیا میں عامۃ الناس کی بالادستی، فیصلے اور اختیارکی قوت عوام کے پاس ہونا، سیاسی اور سماجی طور پر آزاد اور باشعور ہونا جمہوریت کہلاتا ہے۔ جمہوریت کے دعویدار ہمیشہ سے یہ دعوے کرتے آئے ہیں کہ عوام کی سوچ، فکر، سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کی آزادی جمہوریت سے بہترکوئی نہیں دے سکتا۔ مگر ایک ایساملک بھی ہے جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت گردانتا ہے اور دن رات یہ راگ الاپتا ہے کہ دنیا میں اگر کسی جگہ پر عوام کو شخصی آزادی اور فیصلے کی قوت حاصل ہے تو وہ اس ملک میں ہے۔ یہ ملک دنیا میں بھارت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس دعوے کی روشنی میں جب ہم بھارت کی درون خانہ سیاست و معاشرت اور شخصی و سماجی آزادی کا بغور جائزہ لیتے ہیں توحالت اس دعوے کے بالکل برعکس نظر آتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت وہ ملک ہے جہاں ذات پات، نسل و برادری، مذہب اور رسم و رواج کے نام پر انسانی حقوق کی جی بھر کر تذلیل کی جاتی ہے۔ حقوق انسانی کے چارٹرز کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ مذہب، عقیدہ اور ذات پات کی بنیاد پر لوگوں کو ہراساں کرنا، ان کا قتل عام کرنا، کاروبار اور جائیداد کو نذر آتش کرنا، معمول کی بات ہے اور ستم یہ کہ یہ سارے کام حکومت کی محفوظ چھتری تلے سرانجام دیے جاتے ہیں. نتیجتاً خوف و ہراس اور تشدد و غارت گری کی ایک فضا تشکیل پاتی ہے اور مجبور و مقہور قومیں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے جمہوری انداز اپناتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔ مظاہروں، ہڑتالوں اور احتجاج کاسلسلہ شروع ہوتا ہے، مگر جمہوری حکومت پر جمہوری انداز گراں گزرتا ہے، اور وہ بزور قوت دبانے اور جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے، بےبس اور لاچار لوگوں کا ناحق خون بہایا جاتا ہے۔ جب لوگ اپنے پیاروں کے تڑپتے لاشے اور کاروبار اور جائیداد کو نذرآتش ہوتا دیکھتے ہیں تو ان کی برداشت جواب دے جاتی ہے اور وہ ہتھیار اٹھاکر اپنے حقوق کے لیے مسلح تحریک کا آغاز کر دیتے ہیں۔
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام علاقوں میں فقط کشمیر میں ہی انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے اور صرف کشمیر سے ہی آزادی اور علیحدگی کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں مگر یہ تاثر درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پورا بھارت آتش فشاں بنا ہوا ہے جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ کشمیر کے علاوہ مشرقی پنجاب (خالصتان)، تامل ناڈو، آسام، ناگا لینڈ، تری پورہ، منی پورہ، میزورام سمیت شمال مشرقی بھارت کی کئی ریاستوں میں آزادی کی مضبوط تحریکیں چل رہی ہیں۔ حال ہی میں دلت کمیونٹی بھی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے اور اس نے بھی احتجاج اور مظاہروں کا رستہ اپنا لیا ہے۔ وہ بھی لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آ رہی ہے۔ اگرچہ بھارت نے افسپاجیسے کالے قوانین بنا کر ان تحریکوں کو بزور قوت دبانے کی کوشش کی ہے مگر
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
لہو پھر لہو ہے بہتا ہے تو جم جاتا ہے
کے مصداق یہ تحریکیں تیزی کے ساتھ ابھر رہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں جہاں کشمیرکی تحریک میں تیزی آئی، وہیں پورے بھارت میں آزادی کی دیگر تحریکوں میں بھی تیزی دیکھنے کو آئی ہے۔ ناگالینڈ کے معاملے میں تو بھارت ان کو پاسپورٹ اور جھنڈا تک علیحدہ دینے کو تیار بیٹھا تھا۔ ان تحریکوں میں بھارتی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والوں نوجوانوں نے حصہ ڈالا ہے، تعلیمی اداروں میں ان تحریکوں کے حق میں جلسے جلوسوں اور سرگرمیوں سے ان کی آواز باہر کی دنیا تک پہنچ رہی ہے۔ جواہرلال نہرویونیورسٹی اوراس کے بعد ملک کی دیگر بڑی یونیورسٹیز میں ان تحریکوں کے حق میں ہونے والے احتجاج کی بازگشت پوری دنیامیں سنی گئی اور دنیا بھر میں تبصرے ہونے لگے کہ بھارت انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور اپنی تعلیم کے مؤثر استعمال کے ساتھ ان نوجوانوں نے آزادی کی تحریکوں کو اس سطح پر پہنچا دیا ہے کہ بھارتی افواج اپنے تمام تر مظالم اور قوت کے ساتھ بھی ان تحریکوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہیں۔
کشمیر کے علاوہ بھارت کے160سے زائد اضلاع پر ماؤنواز باغیوں اور نکسل باڑیوں کاقبضہ ہے۔ آندھراپردیش، جھاڑ کھنڈ، اڑیسہ، مغربی بنگال، چھتیس گڑھ، مہاراشٹرا اور بوج مرہ وغیرہ کے92 ہزار مربع کلومیٹر پر ان باغیوں کی حکومت ہے۔ ان کی اپنی عدالتیں اور اپنا پولیس کانظام ہے۔ حکومت کا کوئی کارندہ وہاں پر نہیں مار سکتا۔ پوری انتظامیہ قتل کر دی جاتی ہے۔ خود بھارت کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ان ماؤنواز باغیوں کی تعداد60 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے اور ان کے پاس جدید ترین اسلحہ ہے، اب تک یہ ہزاروں بھارتی فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتارچکے ہیں۔ بھارت کی انتظامی اور فوجی مشینری ان کے سامنے مکمل طور پر بےبس ہو چکی ہے۔ گزشتہ ماہ مہاراشٹر کے ایک ضلع میں سترہ فوجی ان کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ اسی طرح بہار میں نکسلوں نے گھات لگا کر بھارت کے بیس کوبرا کمانڈوز کو قتل اور دس کو شدید زخمی کر دیا۔ باغیوں کی طرف سے بھارتی فوج اور انتظامی مشینری پر یہ ایسی کاری ضرب ہے جو ابھی تک ہضم نہیں ہو رہی ہے۔
کشمیرکے بعد دوسری لمبے عرصے تک چلنے والی تحریک خالصتان کی ہے جو بھار ت میں بسنے والے سکھوں نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خاتمے کے لیے شروع کی اور بالآخر یہ خالصتان کے مطالبے پر منتج ہوئی۔ سکھوں کی بےشمار تنظیمیں ہیں جواس تحریک میں شعلہ جوالا کا کام کر رہی ہیں۔ ان میں اکالی دل، ببرخالصہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ سکھ بھی اب یونیورسٹیوں اوراسی طرح دیگر کئی ممالک میں اپنی تحریک کوزندہ رکھے ہوئے ہیں۔ چنددن قبل برطانیہ میں ہونے والے مظاہرے میں خالصتان تحریک کے لیے احتجاج کرنے والوں نے اس طرح کے نعرے لگائے:
پنجاب خالصتان کا
کشمیرپاکستان کا
ان کے علاوہ آسام میں مسلم یونائٹیڈ لبریشن ٹائیگرز آف آسام اور تری پورہ و منی پورہ وغیرہ میں بھی لوگ مسلسل آزادی کے لیے کاوشوں میں مصروف ہیں۔ کشمیر کی حالیہ تحریک میں آنے والی شدت کا اثر دوسری تحریکوں پر بھی پڑا ہے اور لوگ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ بھارت سے علیحدگی کا مطالبہ دہرانے لگے ہیں۔ بھارت گیس کے اس غبارے کی مانند بنتا جا رہا ہے جو پریشر سے کسی بھی لمحے پھٹ سکتا ہے۔
تبصرہ لکھیے