"ہماری جنگ صرف غزہ تک محدود نہیں، بلکہ ہم پورے مشرق وسطیٰ کے نقشے کو تبدیل کرنے جا رہے ہیں۔"
(نیتن یاہو)
یہ وہ الفاظ ہیں جو کسی حکمتِ عملی کا اعلان نہیں، بلکہ تمہارے ایمان کو چیلنج ہے، تمہاری غیرت کو طعنہ ہے، تمہارے نبی کی امت کو کھلا دھمکی نامہ ہے۔
اور حیرت ہے!
امتِ مسلمہ کے حکمران... خاموش!
ان کے ایوان... خاموش!
ان کی افواج... خاموش!
مگر تاریخ چیخ رہی ہے...
وہ تاریخ جو معرکۂ یرموک میں خالد بن ولید کی تلواروں سے لکھی گئی
جو حطین کے میدان میں صلاح الدین کی للکار سے روشن ہوئی
جو قسطنطنیہ کی دیواروں پر محمد فاتح کے توپوں کی گرج سے نقش ہوئی۔
کیا تم نے وہ دن بھلا دیے جب معتصم باللہ کے دربار میں ایک مظلوم عورت کی فریاد پہنچی تھی؟
صرف "وامعتصماہ!"
اور وہ پورا لشکر لے کر نکل پڑا تھا، صرف ایک غیرت مند چیخ پر!
آج ہزاروں "وامعتصماہ" چیخ رہی ہیں،
غزہ کی عورتیں، بچے، بزرگ، سب تمہیں پکار رہے ہیں،
اور تم ہو کہ تمہاری زبانیں بند، آنکھیں جھکی، دل مردہ ہو چکے!
کیا تم نے طارق بن زیاد کو نہیں پڑھا؟
جس نے کہا تھا:
"آگے سمندر ہے، پیچھے دشمن۔ اب یا فتح یا شہادت!"
اور آج تم نے اپنی پشت پر دجال کے دروازے کھول دیے،
تم ان کی زبان بولتے ہو، ان کے نظام اپناتے ہو، ان کی خوشنودی کو اسلام پر ترجیح دیتے ہو!
کیا تم نے نورالدین زنگی کو بھلا دیا؟
جسے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پکارا، اور وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر مدینہ پہنچا؟
اور تم... مسجد اقصیٰ کے مینار رو رہے ہیں، اور تمہاری غیرت خاموش ہے!
یاد رکھو!
تم نے اگر صلاح الدین کا راستہ نہ چُنا،
تو تمہیں تاریخ یزید سے بھی بدتر لکھے گی!
تم نے اگر محمد بن قاسم کے وارث ہونے کا حق ادا نہ کیا،
تو تم نسلِ نو کو صرف بے بسی کا ورثہ دو گے۔
اے مسلمانو!
خون کی جو ندیاں غزہ میں بہہ رہی ہیں،
وہ تمہارے سکوت پر لعنت بھیج رہی ہیں۔
اٹھو! تلواریں نکالو، اگر نہیں تو قلم تو اٹھاؤ!
دل میں غیرت پیدا کرو، اگر بندوق نہیں تو دعا میں تڑپ تو لاؤ!
یہ وقت "مسئلہ فلسطین" کا نہیں،
یہ وقت امت کی بقا کا ہے،
یہ وقت اسلام کی سربلندی یا زوال کا ہے،
یا تمہاری تلواریں دوبارہ چمکیں گی، یا تم غلامی کی زنجیروں میں دفن ہو جاؤ گے!
تبصرہ لکھیے