میں عام ہوں ربّی...
نہ میرا کوئی لقب ہے، نہ پہچان، نہ مقام
نہ شہرت کی چمک ہے، نہ لوگوں کے سلام
میری فصیلیں ٹوٹی ہیں، میرا محل خاکی ہے
میرے لفظ بکھرے ہیں، میری دعا باقی ہے
میں عام ہوں ربّی...
میں وہ جو گلیوں کی دھول میں بھیگتی ہے
خاموشی میں زندہ رہتی ہے، تنہائی میں جھلکتی ہے
نہ میرے پاس علم کا غرور ہے
نہ عبادت کا فخر
بس تیرا دیا ہوا وقت ہے
اور تیری بخشش کی نظر
میں عام ہوں ربّی...
خطا کار بھی، گناہ گار بھی
سجدوں میں بکھر جانے والی بےکار بھی
مگر میرے دل کی زمین پر
تیری رحمت کی بارش اترتی ہے
اور میں پھر سنور جاتی ہوں
پھر جی اٹھتی ہوں
پھر امیدوں کی کلیاں کھِل اٹھتی ہیں
میں عام ہوں ربّی...
مجھے نہ تخت کی چاہ ہے
نہ نام کی طلب
مجھے بس تیرا ساتھ چاہیے
تیری یاد کی روشنی کافی ہے
تیرے کرم کی اک نظر کافی ہے
لوگ چاہیں یا چھوڑ دیں
دنیا دے یا چھین لے
میرے ہاتھ خالی رہیں
یا دعائیں پوری نہ ہوں
مجھے صرف اتنا چاہیے ربّی —
کہ میرا دل تیرا در نہ چھوڑے
میری آنکھ تیرا رستہ نہ بھولے
میری زبان تیرا ذکر نہ روکے
اور میرا آخری سانس
تیری رضا میں رکے
میں عام ہوں ربّی...
اور اسی عامیّت میں میرا غرور ہے
اسی بے نامی میں میرا سکون ہے
اسی فانی پن میں میری پہچان ہے
کیونکہ تو جانتا ہے ربّی...
جب تو قبول کرلے
تو گم نامی بھی تاج بن جاتی ہے
اور بے نشانی بھی نشانی ہو جاتی ہے
تبصرہ لکھیے