ہوم << حسنِ اخلاق اور مسکراہٹ -فخرالزمان سرحدی

حسنِ اخلاق اور مسکراہٹ -فخرالزمان سرحدی

پیارے قارئین!عنوان اس قدر اہم اور عصری تقاضوں کی ترجمانی کرتا ہے۔اس قیمتی عنوان پر کچھ عرض کرنا کہاں میری بساط مگر الفت کے تقاضے اس قدر کچھ تو عرض کروں۔بقول شاعر:-

انداز بیاں اگرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جاۓ تیرے دل میں میری بات

ماہرین کے مطابق نرم مزاجی٬حسنِ اخلاق اور تبسم گفتگو ایمان کی علامت ہے۔یہ بات تو مسلمہ ہے کہ انسان کی پہچان تو اس کے رویہ و کردار کی بدولت ہے۔انسان کی فطرت میں یہ بات ہے کہ اسے انسانی رویے بھولتے نہیں ہیں۔حسنِ معاشرت کا تقاضا ہے کہ انسان کے اخلاق اچھے ہوں اور طرز گفتگو مثبت اصولوں کی آٸینہ دار ہو۔زندگی اور حسنِ اخلاق کا گہرا ربط ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ طرز گفتگو میں الفاظ کے چناؤ اور بہتر استعمال کی مہارت ہو ۔مقرر ہو کہ معلم غرض زندگی کے کسی شعبہ سے تعلق ہو بات کرنے کے راز سے آگاہی ضرور ہے۔

فلسفہ اخلاق کا معیار تو یہی ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ایک خوبصورت معاشرے کی بنیادیں حسنِ اخلاق اور مسکراہٹ کے جوہر سے مضبوط ہوتی ہیں۔اس ضمن میں سماج اور معاشرے کی تعمیر اور ترقی میں حسنِ اخلاق اور مسکراہٹ کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔عہد حاضر کے نوجوان کو حسن اخلاق اور مسکراہٹ کی فلاسفی سے آگاہی ضروری ہے۔تعلیم ایسی دی جاۓ جس سے درد سوز آرزو مندی کی حقیقت اس پر عیاں ہو اور خود شناسی اور خدا شناسی سے آگاہی بھی اسے حاصل ہو۔پر کیف تقاریر اور بیانات حسن اخلاق کی بنیاد میں اہم کردار شمار ہوتے ہیں۔بقول شاعر:-”سنا ہےبات کرے تو پھول جھڑتے ہیں“

اچھی باتیں تو انسان کا سرمایہ حیات ہوتی ہیں۔حسن اخلاق سے ہی دلوں میں جگہ بن پاتی ہے اور امن کی فصل پک کر تیار ہوتی ہے۔اس لیے سوچ سمجھ کر بولنا ہی مقبولیت کی دلیل ہے۔زبان کے استعمال میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔سماج کے بنانے اور بگاڑنے میں زبان کا استعمال اہم شمار ہوتا ہے۔آپس کی نفرتیں اور دوریاں صرف اور صرف زبان کی نوک سے ادا ہونے والے الفاظ اور کلمات ہوتے ہیں۔اس لیے سلگتے معاشرتی مسائل کا مناسب حل بھی ضروری ہے۔انسانی رویوں سے سماج کی ترقی بھی ممکن ہوتی ہے اور سماج کی پستی بھی وجہ بنتی ہے۔انسانیت کا احترام سماج کے استحکام کا سبب بنتا ہے۔ حسن اخلاق اور مسکراہٹ سے دلوں پر حکمرانی کا خواب بھی پورا ہوتا ہے۔