ہوم << ایک پشتو شاعر کا سلطان باہو کو نذرانہ عقیدت - محمد کامران اتمان خیل

ایک پشتو شاعر کا سلطان باہو کو نذرانہ عقیدت - محمد کامران اتمان خیل

دنیا کے کسی بھی خطے کا ادب پڑھیں اور سمجھیں تو معلوم ہوگا کہ نہ صرف اس زمانے کے مخصوص حالات اور واقعات نے اس عہد کے ادب اور ادیبوں کو متاثر کیا ہے بلکہ اس عہد میں موجود یا اس عہد سے بہت پہلے گزرے ہوئے ادیبوں نے بھی ان پر اپنے اثرات مرتب کیے ہیں. ان ادیبوں یا لکھنے والوں کی بہت سی چیزوں کو اس عہد کے بعد کے لکھنے والے ادیبوں نے اپنا کر اور اپنے رنگ میں رنگ کر ایک منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔

ادب میں اس طرح کسی کی تقلید کرنا، کسی سے متاثر ہونا یا خراج عقیدت پیش کرنا کوئی بری بات نہیں ، اور یہ ہر زمانے میں ہوتا رہا ہے.حتیٰ کہ اردو زبان کے بڑے شاعر مرزا غالب جن کو شاعری کی دنیا میں انانیت کی ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اور جن میں اس حد تک خودپسندی ہے کہ اپنے بارے میں کہتے ہیں

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

وہی غالب میر تقی میر کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتےہیں کہ

ریختہ کہ تمھی استاد نہیں ہو غالب
کہتےہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

یا

غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناصح
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

ان کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ مؤمن خان مؤمن کی ایک غزل یا اس غزل کے اس ایک شعر

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

پر اپنا پورا دیوان قربان کرنے کو تیار تھے.

یا جس طرح ذوق نے میر کے بارے میں کہا تھا:

نہ ہوا پر نہ ہوا میر سا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا

العرض ایسی بے شمار مثالیں آپ کو ہر زبان اور ہر خطے کے شعر و ادب میں ملیں گی.

طوالت سے بچنے کے لیے ہم سیدھا اپنے موضوع پر آتے ہیں ، اور وہ ہے پشتو زبان کے شاعر ریاض تسنیم کا پنجابی زبان کے شاعر سلطان باہو کو نذرانہ عقیدت پیش کرنا۔ اس سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ ان کو آپ سے متعارف کروا دوں۔
محمد ریاض تسنیم ادبی دنیا میں ریاض تسنیم کے نام سے جانے جاتے ہیں. 3 دسمبر 1968ء کو خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ کے ایک گاؤں "سواتوں کلے" میں لال سید کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں میں حاصل کی. پھر اسلامیہ کالج پشاور اور بعد ازاں کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا۔ پشاور سے نکلنے والے پشتو اخبار"روزنامہ وحدت" کے معاون مدیر رہے۔پشتو کے ساتھ اردو زبان میں شاعری کا شغف ہے۔ پشتو شاعری کا پہلا مجموعہ"دا کوم رنگ می کشید کڑے" کے نام سے 2003ء میں منظر عام پر آیا، اس کے بعد دو شعری مجموعے"چندن" اور " زہ کہ دا واری جوندے شوم " کے نام سے شائع ہوئے۔ پشتو زبان کے سب سے بڑے شاعر خوشحال خان خٹک کا شعری انتحاب" د خوشحال انتخاب" کے نام سے کیا۔ کراچی میں دوستوں کے ساتھ مل کر " جرس ادبی جرگہ " کے نام سے ایک ادبی تنظیم کے بنیاد رکھنے اور "جرس" کے نام سے ادبی مجلہ نکالنے والے ریاض تسنیم نے اردو میں "بیڈ نمبر 28" کے نام سے مضامین لکھے لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے کتابی صورت میں شائع نہ ہوسکے۔

تسنیم نے نہ صرف پشتو زبان کی کلاسیکی شاعری کو سنجیدگی سے پڑھا بلکہ بین الاقوامی شعراء کے ساتھ انھیں اردو اورعلاقائی زبانوں جیسے پنجابی اور ہندکو ادب پر بھی کافی حد تک عبور حاصل تھا۔ پنجابی زبان و ادب سے نہ صرف خاص لگاؤ تھا بلکہ خالص پنجابی صنف "ماہیہ" کو پشتو شاعری میں بھی متعارف کروایا ۔ وہ پنجابی شاعر حضرت سلطان باہو کو اپنا پیر و مرشد مانتے ہیں اور اپنے شعری مجموعے " دا کوم رنگ می کشید کڑے" میں حضرت سلطان باہو کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار " حضرت سلطان باہو تہ نظر"(حضرت سلطان باہو کی نظر) کے عنوان سے ایک نظم میں کیا ہے۔ اس نظم میں سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں
ما داسی خوب ولید چی لوگے شہ تری خوبانی ھو
زہ تنہا ولاڑ یم او چاپیرہ اوہ رنگونہ ھو
(میں نے ایسا خواب دیکھا جس پر سارے خواب قربان ہو، میں سات رنگوں کے بیچ تنہا کھڑا ہوں)

چونکہ تسنیم سلطان باہو کو اپنا مرشد مانتے ہیں ، اس لیے مریدوں والے انداز میں کہتے ہیں کہ میں نے ایک خواب دیکھا ، اور خواب بھی ایسا کہ جس پہ میرے سارے خواب قربان ہو ۔ یعنی جو خواب میں نے دیکھا بہت معتبر ہے ، اور یہ کہ میں تنہا کھڑا ہوں اور میرے اردگرد سات رنگ ہیں۔ یہاں سات رنگوں سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں سات بنیادی رنگ ہیں، جن کے ملاپ سے دنیا کے باقی رنگ بنے ہیں، دنیا میں ہمیں جو کچھ بھی نظر آتا ہے ان سات رنگوں سے بنا ہے، یعنی کہ میرے اردگرد پہاڑ، نباتات و جمادات وغیرہ سب کچھ ہے، لیکن میں ان سب میں تنہا کھڑا ہوں، اور میں ان سب کو چھوڑ کر آپ کے پیچھے چل پڑا ہوں، کیونکہ میں آپ کو اپنا مرشد مانتا ہوں اور یہ خواب مجھے اس لیے معتبر اور عزیز ہے کہ اس میں، میں آپ کے پیچھے چل پڑا ہوں ، اور اس خواب میں آپ شامل ہیں۔

گدم پہ زان قدم زکہ قدم پہ قدم تا وینم
عشق خو داسی لار دہ چی ژوندی لری ریگونہ ھو
(میں خود پر ہی قدم رکھتا ہوں اور پاتا ہوں ہر قدم تجھ کو، عشق ہی وہ رستہ ہے جو ریت/گرد میں زندگی کا موجب ہے )

یعنی کہ میں اپنے آپ کو ناچیز سمجھتا ہوں، عاجز مانتا ہوں تو اس لیے میں قدم قدم پر آپ کو دیکھتا ہوں اور میری اس عاجزی کا فائدہ یہ ہے کہ آپ میرے ساتھ ہیں۔

رحمان بابا فرماتے ہیں
جوندے زان پہ زمکہ خخ کڑہ لکہ تخم
کہ لوئی غواڑی د خاورو پہ مثال شہ

یعنی کہ اگر آپ آہنی بلندیوں پر لے جانا چاہتے ہیں، ایک مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو نہ صرف ایک سرتوڑ کوشش کرنا چاہیے بلکہ اپنی ذات کو فنا کرتے ہوئے "میں" کو ختم کردینا چاہیے۔ اب سلوک کی منازل طے کرنے والے کو چاہیے کہ اپنے شیخ کی مرضی کو اپنی مرضی پر ترجیح دے۔ خود کو شیخ کے سامنے اتنا مٹا دے کہ اگر شیخ دن کو رات کہے تو سالک بھی دن کو رات کہے، اور ریاض تسنیم نے ایسا ہی کیا ہے، اس لیے تو اپنے مرشد کو قدم قدم پر دیکھ رہا ہے ، اور وہ یہ کہتا ہے کہ میری یہ عاجزی و انکساری میرے عشق کا تقاضا ہے، اس کا حاصل یہی ہے کہ میں ہمیشہ آپ کی پیروی کروں۔

اس نظم میں ایک دوسری جگہ پر ریاض تسنیم اپنے مرشد کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرا آپ سے عقیدت ، عشق و محبت کا یہ حال ہے کہ میں جس طرف بھی دیکھتا ہوں، آپ کی آواز سنتا ہوں، اور آپ کی یہ آواز ایسی ہوتی ہے کہ جس میں دنیا کی باقی ساری آوازیں ختم ہوجاتی ہیں، اور مجھے صرف آپ کی آواز سنائی دیتی ہے۔اس کا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ بہت سے لوگ ہیں جن کو لوگوں نے پیر و مرشد بنایا ہوا ہے یا وہ خود کو مرتبے والا گردانتے ہیں اور وہ خود کو پیر بتاتے ہیں لیکن مجھے صرف آپ نظر آتے ہیں اور میں صرف آپ کو ہی مرشد مانتا ہوں۔

Comments

Avatar photo

محمد کامران اتمان خیل

محمد کامران اتمان خیل شاعر اور افسانہ نگار ہیں۔ شاعری پشتو زبان میں کرتے ہیں۔ ترجمہ نگاری میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ اردو میں پشتو افسانوں کے تراجم اور اردو سے پشتو میں منظوم تراجم کیے ہیں۔ اورینٹل کالج، جامعہ پنجاب لاہور سے بی ایس اردو کیا ہے۔ ادب، زبان اور ثقافت کے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ اپنی تخلیقی صلاحیت اور ترجمہ نگاری کے ذریعے ادب کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

Click here to post a comment