حالیہ دنوں میں پڑوسی ملک ھندستان میں وقف ایک بل منظور ہوا جس کے پیش نظر ھندستان کے تمام وقف ادارے اب حکومت کے انڈر ہوں گے۔ یاد رہے یہ وقف بل کی اصل کہانی کیا ہے اس کو سمجھنا ہوگا 1857میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت آئی تو اس نے مسلم کمیونٹی سمیت تمام مذاہب کے مقدسات پر قبضہ کیا، اب ان ہی کے رحم و کرم پر تھا کہ ان کو اصلی صورت میں رکھا جائے یا تبدیل کیا جائے۔
اس زمانے میں جہاں ایک بھاری اکثریت برطانیہ حکومت کے خلاف تھی، ان کے خلاف مظاہرے اور ہر ممکن مزاحمت کررہی تھی، وہاں ایک ایسا گروہ بھی دیکھنے کو ملا جو برطانوی حکومت کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہوئے ان سے قومی مفاد کے لیے کام کرواتا تھا، انہی میں مسلم تعلیم دان جناب سر سید احمد خان کی کوششوں سے مسلمانوں کے دینی معاملات میں خود مختاری کا حکم نامہ جاری ہوا، جس کے پیش نظر اب مسلمان عبادت گاہوں، مزارات اور امام بار گاہوں میں خود مختار تھے، حکومت ان کے دینی معاملات نکاح، طلاق اور دوسرے معاملات میں حکومت کے تابع نہ تھے، وہی بل اس زمانے سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے بے دخلی تک، اس کے بعد سے موجودہ ہندوستان تک، جوں کا توں رہا کسی نے بھی اس حق سے چھیڑ خانی نہ کی، ہاں البتہ کچھ نا کچھ شرارتیں ہورہی تھیں، لیکن مکمل طور پر حکومت کے انڈر آنے والے آرڈیننس کی نوبت نہ آئی تھی، اس طرح کی مذموم کوشش گزشتہ گورنمنٹ نے پاکستان نے بھی کی تھی FATAF کے ہدایات پر، تاہم مذہبی تنظیموں کی کوششوں سے ناکام ہوئے۔
لیکن انڈیا میں ابھی جو بل پاس ہوا ہے، یہ مودی حکومت کی مسلم دشمنی کی ایک کڑی ہے، جو اپنے دور اقتدار کو طول دینے کے لیے شروع سے کرتے آرہے ہیں۔ نریندر مودی کی جب سے حکومت آئی ہے تب سے ہندستانی مسلم خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ مودی حکومت میں مسلمان خود کو جتنا غیر محفوظ فیل کرتے ہیں اتنا کبھی پہلے ہراسمنٹ یا تھریڈ کا شکار نہ تھے۔ مساجد اور مدارس مزارات اور امام بار گاہوں پر اب مختلف قسم کی قیودات لگائی جارہی ہیں۔ اس سے پہلے عید کے اجتماعات مسجد تک محدود کیے گئے تو عبادت گاہ بنانے کے لیے حکومتی اجازت کو لازمی قرار دیا گیا۔
انڈین حکومت بل کو اس طرح پیش کرتے ہیں گویا یہ سب کے بھلے کے لیے ہے، لیکن دنیا سمجھتی ہے اس طرح کے بل جس سے وقف املاک عملاً انڈین حکومت کے ماتحت ہورہے ہیں، تو اس سے مسلمانوں کو ہی بھاری نقصان ہوگا، دیگر مذاھب کے وقف املاک گنتے کے چند ہیں جو اب بھی محفوظ ہیں۔ اب اس بل کے بعد حکومت کبھی بھی کسی دینی ادارے کو ہسپتال یا رفاحی ادارے میں کنورٹ کرسکتی ہے، کبھی بھی اس پر پابندی لگا سکتی ہے جو ایک بنیادی حق پر ناحق ڈاکہ ہے، جس کا ارتکاب حکومت ہند کرنے والی ہے۔
یاد رہے ہندوستان مسلم وقف املاک کے حوالے سے معروف ہے، ھندوستان میں مسلمانوں کے وقف املاک غیر معمولی حد تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں ایک مرتبہ پھر مسلم نسل کشی کا سامان تیار کیا جارہا ہے۔ اسرائیل جو آج کل فلسطین پر ظلم پر ظلم ڈھائے جارہی ہے، اس نے بھی سب سے پہلے اس طرح کی مذموم حرکت کی تھی، تمام وقف املاک کو اپنے ماتحت کیا اور جس کو جی چاہے نماز کی اجازت دی جس کو چاہا روکا، جس کا مشاہدہ اب بھی کیا جارہا ہے۔ پھر خلاف ورزی کی پاداش میں بے مہار ہوکر ظلم کیا۔ عالمی عدالت سنجیدہ ہندوستانی اور بااثر ممالک اس بل کے خلاف کھڑے ہوں تو ان شاءاللہ یہ بل ضرور رد ہوسکتا ہے۔ اس بل کی منظوری ہندوستان میں اقلیت کے غیر محفوظ ہونے کی دلیل ہے جس سے اس کا گراف بدترین سطح تک گرجائے گا۔
تبصرہ لکھیے