پیارے قارئین!ایک تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا۔سید فرید اللہ شاہ صاحب بہت سے سالانہ تقریب تقسیم انعامات میں بطور خصوصی مہمان مدعو کرتے ہیں۔اس بار بھی محبتوں بھرا دعوت نامہ ملا تو دل کے آنگن میں خوشی کے پھول کھل اٹھے اور گوشہ قلب میں مسرت کی بادِ نسیم کے جھونکے محسوس ہوۓ۔کیونکہ تقریب ان معصوم ہستیوں کی تھی جو مستقبل کی تعمیر کے بلند کردار تھے۔سال بھر کی محنت کا ان کو صلہ اور پھل ملنے کو تھا۔اساتذہ اور ملازمین نے بڑے اہتمام سے تقریب سجا رکھی تھی۔ہر طرف معصوم بچوں اور بچیوں کی امید بھری آوازیں سنائی دے رہی تھیں ۔نتیجہ آنے کو ہے۔مہمانوں اور طلبہ کے والدین کی آمد سے تقریب میں ایک رونق سی برپا تھی۔تقریب میں بچے٬جوان اور بزرگ شریک تھے ۔حسب معمول قاضی عزیر صاحب نے اعلان کیا کہ تمام مہمان حضرات اور والدین کو تقریب میں خوش آمدید کہتا ہوں۔دل میں ایک امید اور آس تھی کہ بہت کچھ سننے اور دیکھنے کو ملے گا اور پھر وہی ہوا۔ بقول شاعر: ”آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں“
تلاوت قرآن مجید سے تقریب کا آغاز ہوا۔اس کے بعد قوم کے معماران نے اساتذہ کرام کی محنت اور لگن سے ہم نصابی سرگرمیاں پیش کیں اور تقریب کی رونق میں بہار سی پیدا کر دی۔نعت ٬وطن سے محبت کے نغمات٬اردو اور انگلش تقاریر اور حالات حاضرہ کی عکاسی بھی بہترین فن اور ڈرامہ سے کی۔گویا محفل کو چار چاند لگا دیے۔یہ خوش آئند بات ہے کہ اساتذہ کرام نے گورنمنٹ انگلش میڈیم پرائمری سکول ڈِنگ سوکا ہری پور میں زیر تعلیم طلبہ کو تقریب کے لیے بھرپور انداز سے تیار کیا ۔ہر سرگرمی میں محنت اور کوشش کی جھلک نمایاں تھی۔رمضان المبارک میں گہری دلچسپی سے تقریب کا اہتمام تو حوصلے اور ہمت کا اشارہ ہے وگرنہ سادگی سے نتائج سنانا تو عام سی بات ہے۔گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول نوردی ہری پور میں بھی مجھے مدعو کیا گیا تھا۔قاضی محمد جاوید صاحب پرنسپل کی محبت کہ مجھے نتائج سے قبل دعوت دے کر حقیقی محبت کا ثبوت دیا۔بانڈی گلو ہری پور سے کالا خان صاحب جو بہت محبت کرتے ہیں۔ان کے بیٹے کا انعام تھا۔ان کی خواہش تھی کہ شرکت کروں لیکن چونکہ مجھے ہائیر سیکنڈری سکول نوردی ہری پور جانا تھا ۔
اتنی طویل بات کرنے کا مدعا یہی کہ بچے چونکہ قوم کا سرمایہ ہیں۔ان کی سرگرمیاں دیکھنے کا دل میں ایک ذوق رہتا ہے اور کچھ نہ کچھ عرض کرتا رہتا ہوں۔فیس بک پر تو ہر تعلیمی ادارہ نے اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے کوشش کی اور واقعی بہت خوشی بھی ہوٸی کہ ماہ صیام میں انتہاٸی محنت سے قوم کے معماران کو سرگرمیوں کے لیے تیار کیا۔اس پر ہر استاد کو خراج تحسین پیش کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ قوم کے سرمایہ کی بہتر تعلیمی رہنماٸی اور نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں کے لیے توقع سے بڑھ کر تیار کیا گیا۔اسی طرح پرائیویٹ اداروں کی حسن کارکردگی بھی سامنے آئی۔ آخر یہ سب قوم کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اہتمام کیا گیا۔اس موقع پر سب کے نام مبارکباد کے پھول۔اس ضمن میں جس چیز کی کمی ہے وہ حوصلہ افزائی کی ہے۔جب بچے تقاریر کرتے ہیں یا کوئی بھی سرگرمی کرتے ہیں تو کھلے دل سے ان کو داد دینی چاہیے۔بچے معصوم ہوتے ہیں ان میں خود اعتمادی کی صفت کو پروان چڑھانے سے درخشاں مستقبل کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔عید کے موقع پر بچوں اور بچیوں کو شریک کرنا اولین ترجیح ہونا چاہیے۔تاکہ ان کو روحانی خوشی محسوس ہو اور آگے بڑھنے کا حوصلہ بھی ان میں پیدا ہو۔
تبصرہ لکھیے