یوں تو رہے گا رابطہ،
کہیں فون کی لکیروں میں،
مگر ایک ساتھ بیٹھ کر
ہنسنے کی وہ تصویریں نہیں ہوں گی۔
لگا تو دیں گے ہم
اسٹیٹس پر سالگرہ کی مبارک باد،
پر باغ کی باڑ سے چُرا کر
پھول دینے کی وہ شوخ ادائیں نہیں ہوں گی۔
اچانک کبھی،
کسی اجنبی سی محفل میں
چہرہ جانا پہچانا ملے گا،
لبوں پر مسکراہٹ تو سجی ہو گی،
مگر دل کے اندر بجتی
وہ شہنائیاں نہیں ہوں گی۔
کبھی تنہائی کے لمحوں میں
یادوں کی بوسیدہ ڈائری کھولیں گے،
کچھ تحریریں مٹی مٹی سی ہوں گی،
کچھ صفحے بکھر چکے ہوں گے،
مگر ان بکھرے ورقوں میں
وہ بےپرواہ کہانیاں نہیں ہوں گی۔
چلیں گے ہم بھی
زمانے کی بھیڑ میں،
رنگین کہکشاؤں کے درمیان،
ملیں گے ہزاروں چہرے،
کچھ اپنے سے بھی لگیں گے،
پر دل کی تہوں میں چھپی
دوستوں جیسی وہ بےساختہ بےتابیاں نہیں ہوں گی۔
خوابوں کی وادی سے نکل کر
حقیقت کے صحرا میں آئیں گے،
جہاں مسکراہٹیں تو ملیں گی،
پر وہ معصوم دل سے نکلنے والی ہنسی
کبھی لوٹ کر نہیں آئے گی۔
پھر بھی کبھی،
کسی پرانے درخت کے سائے تلے بیٹھ کر
ماضی کے اوراق پلٹیں گے،
اور دل کہے گا...
کاش وقت پلٹ آئے،
مگر وہ لمحے،
وہ نادانیاں،
وہ مہکتی ہوائیں...
واپس کبھی نہیں آئیں گی۔
یادوں کے جھروکوں میں،
اب بھی جگمگاتی ہے "کہکشاں"،
دوستوں کی ہنسی، باتوں کی خوشبو
میری نظم کی پہچان ہے کہکشاں
تبصرہ لکھیے