ہوم << بھٹو کے اصلی وارث - ایم آر ملک

بھٹو کے اصلی وارث - ایم آر ملک

غیر مرئی جذبات آپ کو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں. سکھر کا اظہار علی اعوان جانے کیوں مجھے اپنے وجود کا حصہ لگتا ہے، اور نادر بلوچ عزیز ہے کہ اُس کے والد کی محبتیں قرض ہیں. تعلیم یافتہ ہونا الگ بات ہے اور باشعور ہونا الگ ، اور جب کسی فرد میں یہ دونوں خاصیتیں اکٹھی ہو جائیں تو ایسے افراد معاشروں کے معمار بن جاتے ہیں.

عزیزم نادر بلوچ میں یہ دونوں خاصیتیں ہیں. والدین کےلیے ایسے نوجوان فخر ہوتے ہیں. کئی برس پہلے نادر بلوچ کا بے حد اصرار مجھے فرید خان میرانی کی سرپرستی اور صدارت میں ہونے والے اس اکٹھ میں لے گیا. یہ شمالی صدر بازار کے عقب میں بھٹو کی برسی پر اُس کے اصلی وارثوں کا اکٹھ تھا . بزرگوں کے چہرے پر میں نے کرب کی پرچھائیاں دیکھیں اورجب 4اپریل آتا ہے تو بھٹو کے دیرینہ ورکروں کے چہروں پر یہ کرب کی پرچھائیاں گہری ہو جاتی ہیں. بھٹو کا نظریاتی ورکر ہر برس اس کرب سے گزرتا ہے. میری اس بات کا احساس کرنا ہے تو اُس ورکر سے جا کرپوچھیے اس کرب کا احوال، جس نے 4اپریل 1979کو اپنے کندھے سے سیاست کا بوجھ اُتار پھینکا، اور اپنی زندگی کی سانسوں کوجسم کے پنجرے میں محصور کر لیا، سیاست سے لاتعلق ہو گیا .

ایسے نظریاتی ورکروں کی اپنی سوچ ہے مگر میں کہتا ہوں کہ جب ایسے ورکر بھٹو کی موت کے بعد سیاست سے لاتعلق ہو گئے تو اس کا نقصان معاشرے کے پسماندہ طبقات کو ہوا. جو زندگی کو برتنا جانتے ہیں، وہ نظریاتی ورکر سیاست میں ایک نئے جذبے کے ساتھ انگڑائی لیکر اُٹھے، اور آج میں اُنھیں ڈاکٹر جاویداقبال کنجال،حسرت خان،شفیق میرانی اور نادر بلوچ کی شکل میں اگلی صف میں دیکھ رہا ہوں. چی گویرا نے کہا تھا کہ ”بعض لوگ مر کر فنا ہونے کے بجائے دوسروں میں منتقل ہو کر اپنی زندگی اور فتح پالیتے ہیں اور پھر وہ سب ناموں میں زندگی بسر کرتے ہیں.“ نظریاتی ورکروں کی یہی خوبی ہے کہ بھٹو کےلیے جان تج دینا، 46برس بعد بھی وہ آج بھٹو کے بارے میں یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ بھٹو کا نام دھرتی ماں کی کوکھ سے لیکر جانبازوں کے بازؤں تک،مزدوروں کے ہاتھوں کے چھالوں تک زندگی کے دوامی تسلسل کی علامت ہے .

ڈاکٹر جاوید اقبال کنجال نے ہمیشہ بھٹو ازم کا پرچار خوبصورت الفاظ میں کیا. ستون دار کی بات کر کے اُس نے بہت سے دلوں پر دکھ کی سل رکھ دی جسے ہلانا شاید ممکن نہیں . جانے کیوں یہ وفا کے پتلے صدیوں کی مسافت پہ کھڑے رہتے ہیں. ضیائی مارشل لاؤں کے کوڑے کھا کر بھی بس اک مقام پہ ٹھہرے ہوئے ہیں. نادر بلوچ بھی بہت کچھ بولا کہ ”4اپریل کا دن جتنا رنج و الم،غم کا دن ہے، اُتنا ہی جرات سے معمور اور شجاعت سے لبریز ہے.“ وہ ایک ایسے ڈکٹیٹر کے بارے میں بہت کچھ کہہ گیا جس کے مدفن کا کچھ پتہ نہیں. نظریہ کی تعریف میرے دل کو لگی کہ ”جس کے پاس جینے کا نظریہ نہیں ہوتا، وہ کبھی نہ کبھی جھک جاتا ہے، کہیں نہ کہیں بک جاتا ہے، اور جس کے پاس نظریہ ہوتا ہے وہ وقت کا بھٹو بن جاتا ہے،وقت کامنصور کہلاتا ہے.“ وہ اپنی دانست میں ناداستہ طور پر تاریخی بات کہہ گیا .

اور مانی جس سے وقت کی دیوار آج تک نہیں گرائی جاسکی، بھٹوز کے ساتھ عہد وفا کا یقیں لیکر سٹیج پر آتا ہے، کہا لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں جب پیپلز پارٹی کے لوگ پارٹی کو چھوڑ کر اور سیاسی جماعتوں کی طرف جارہے ہیں، تمھیں کیا مسئلہ ہے؟ اُن کی بات بڑی حد تک ذہن کو متاثر کرتی ہے مگر ایک لمحے کےلیے!

والٹر کی سچائی جو آج بھی حالات کے کینوس پر ثبت ہے کہ ”جب عوام کی اکثریت سیاست سے دور ہو جاتی ہے تو نا اہل لوگ اُس پر مسلط ہو جاتے ہیں.“ سیاست کی غلام گردشوں کا احوال وہ ہر بار سٹیج تک لاتا ہے. اس بار بھی سٹیج پر وہ یہی احوال لایا کہ ”عوام کا فیصلہ عوام کرتے ہیں، مگر اقتدار کے کھیل میں عوام کہیں نظر نہیں آتے. 4اپریل کا پیغام اُن تک،جنھیں کسی مجبوری نے سیاست سے بیگانہ کر دیا.“

لیہ کا ذکر یوں کیا کہ آٹھ لا کھ آبادی پر آٹھ خاندانوں کا اقتدار مسلط ہے. سردار فرید خان میرانی نے تو بھٹو کے اصلی وارث ہونے کا ثبوت دیاکہ ”شہید ذوالفقار علی بھٹو ایک شخصیت کانام نہیں، ایک نظریے کا نام ہے جس نے لوگوں کو اُن کے حقوق کے حصول کا شعور دیا.“ سردار فرید خان کی اس سچائی سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے کہ بھٹو مزدور،کسان،ہاری کی زبان بنا،بھٹوز کے ساتھ ایک خاموش عہد کا تسلسل ہے جسے سردار فرید خان،ڈاکٹر جاوید اقبال ابھی تک نبھائے جارہے ہیں. بھٹوز کی موت کے بعد بے ٹھکانہ پرندوں کی وحشت کی طرح نظریاتی ورکروں کے سر پر نہ کٹنے والی تاریک رات کی دبیز چادر تنی ہوئی ہے،ہم آہنگی اور متانت کے ساتھ میں ان ورکروں کے جذبات پر ضبط کے بند بندھے ہوئے دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں .

بھٹو کے اصلی وارث سیاست سے لاتعلق ہو چکے. ورکر حساس ہوتے ہیں اور لیہ میں ایک کڑے وقت میں فرید خان میرانی کا ورکروں کے سر پر دست شفقت رکھنا تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے. یقینا یہ بات بھی قابل ستائش ہے کہ ڈاکٹر جاوید اقبال کنجال نے پارٹی کے ناتواں کندھوں کو اپنا شانہ دیا . کئی برس پہلے شمالی صدر بازار کے عقب میں ہونے والے بھٹو کے اصلی وارثوں کے اکٹھ میں مجھے ورکروں کا غیر مرئی جذبہ لیکر گیا تھا.