ہوم << محمد حسن عسکری کا تصورِ ادب - محمد اشرف یاسین

محمد حسن عسکری کا تصورِ ادب - محمد اشرف یاسین

محمد حسن عسکری کی پیدائش 5 نومبر 1919(بمطابق 11/صفر 1338ہجری) کو قصبہ سراوہ ضلع میرٹھ، اتر پردیش میں عہدِ استعمار میں ہوئی۔ بعض مقامات پر 1921 بھی درج ہے۔ ان کا اصلی اور تاریخی نام محمد اظہار الحق تھا، جبکہ محمد حسن عسکری نے اپنے اسی قلمی نام سے شہرت پائی۔ والدہ کا نام کنیز زہرہ اور والد کا نام محمد معین الحق جبکہ دادا کا نام مولوی حسام الدین تھا۔ والد بلند شہر میں کورٹ آف وارڈز میں ملازم تھے۔ وہاں سے وہ والئی شکار پور(ضلع بلند شہر) رگھو راج کے یہاں بطورِ اکاؤنٹنٹ منتخب ہوکر چلے گئے اور یہاں انہوں نے 1945 تک ملازمت کی۔ محمد حسن عسکری نے 1936 میں مسلم ہائی اسکول بلند شہر سے میٹرک اور 1938 میں میرٹھ کالج سے انٹر پاس کیا۔ الہ آباد یونیورسٹی(الہ آباد کا موجودہ نام پریاگ راج ہے۔) سے بی اے اور پھر 1942 میں انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ اس یونیورسٹی میں انہوں نے فراق گورکھپوری اور پروفیسر کرار حسین جیسے اساتذہ سے بھی کسبِ فیض کیا۔ اس وقت الہ آباد یونیورسٹی میں کئی نامور اساتذہ موجود تھے، جیسے ڈاکٹر عبدالستار صدیقی، ڈاکٹر تارا چند، امرناتھ جھا، ایشوری پرشاد، ستیش چند دیو وغیرہ کے نام خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ستیش چند دیو محمد حسن عسکری کو ان کی ذہانت کی وجہ سے بہت عزیز رکھتے تھے۔

محمد عسکری نے اپنے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا۔ ان کا پہلا افسانہ 1939ء میں شائع ہوا، جس کا عنوان تھا ’’کالج سے گھر تک‘‘ اور یہ سلسلہ 1945 تک جاری رہا، اس کے بعد یہ تنقید کی طرف متوجہ ہوگئے۔ محمد حسن عسکری نے اپنی پہلی ملازمت آل انڈیا ریڈیو، دہلی سے بطورِ اسکرپٹ رائٹر شروع کی۔ اسی زمانے میں شاہد احمد دہلوی اور ان کے رسالہ "ساقی" سے محمد حسن عسکری کا تعلق قائم ہوا۔ 1941 اور 1942 میں بالترتیب کرشن چندر اور عظیم بیگ چغتائی پر ان کے دو طویل مضامین بھی شائع ہوئے۔ 1943 میں فراق گورکھپوری نے شاہد احمد دہلوی کے رسالہ "ساقی" میں "باتیں" کے عنوان سے مستقل کالم لکھنا شروع کیا۔ جب فراق گورکھپوری اس کالم سے دست کش ہوگئے، تو دسمبر 1943 سے یہ کالم محمد حسن عسکری لکھنے لگے اور جنوری 1944 میں اس کالم کا عنوان "جھلکیاں" رکھ دیا گیا۔ یہ کالم 1947 کے فسادات کے تعطل کے علاوہ کم و بیش پابندی سے نومبر 1957 تک مسلسل شائع ہوتا رہا۔ محمد حسن عسکری کچھ دنوں تک اینگلو عربک کالج، دہلی میں انگریزی کے استاد بھی رہے۔ اس کے بعد میرٹھ چلے گئے جہاں وہ میرٹھ کالج میں انگریزی پڑھاتے رہے۔ 1947 میں وہ قیامِ پاکستان کے بعد لاہور منتقل ہو گئے۔ وہاں انہوں نے سعادت حسن منٹو کے ساتھ مل کر مکتبہ جدید لاہور سے "اردو ادب" نام سے ایک رسالہ بھی جاری کیا تھا، جس کے صرف دو ہی شمارے شائع ہو سکے۔ 1950 میں وہ کراچی چلے گئے۔ وہاں ابتداء میں وہ فری لانس ادیب کے طور پر ترجمے اور طبع زاد تحریریں لکھتے رہے۔ جنوری سے جون 1950 تک "ماہ نو" کراچی کے مدیر بھی رہے۔ پھر انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے ملحق کالج میں انگریزی کے استاد کے فرائض انجام دیے۔

محمد حسن عسکری(1919-1978) اردو زبان و ادب کے ایک نامور نقاد، ماہرِ لسانیات، فلسفی، مصنف، مترجم، افسانہ نگار اور انگریزی ادب کے استاد تھے۔ انہوں نے اپنے تنقیدی مضامین اور افسانوں میں جدید مغربی رجحانات کو اردو طبقے میں متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ "جزیرے" 1943 میں شائع ہوا تھا۔ 1946 میں دوسرا مجموعہ "قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے" شائع ہوا۔ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے "انسان اور آدمی" اور "ستارہ اور بادبان" ان کی زندگی میں اور "جھلکیاں"، "وقت کی راگنی" اور "جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ" ان کی وفات کے بعد شائع ہوئے۔ اردو ادب کے علاوہ عالمی افسانوی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ وہ فرانسیسی ادب سے بھی بہت اچھی طرح واقفیت رکھتے تھے، جس کا ثبوت ان کے تراجم سے ملتا ہے۔ آخری دنوں میں محمد حسن عسکری مفتی محمد شفیع کے قرآن مجید کی تفسیر کا انگریزی زبان میں ترجمہ کر رہے تھے، جن میں سے صرف ایک جلد ہی مکمل ہو سکی، ان کا ارادہ مولانا اشرف علی تھانوی کی ملفوظات کو انگریزی اور فرانسیسی زبانوں میں ترجمہ کرنے کا تھا، لیکن یہ کام بھی نہ ہوسکا اور 18 جنوری 1978 کو کراچی میں آپ کا انتقال ہوگیا۔ وہیں تدفین عمل میں آئی اور آپ دارالعلوم کراچی کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔

اُردو ادب کی مشہور ویب سائٹ "ریختہ" پر موجود ان کے تعارف میں یہ الفاظ درج ہیں۔ "بہر طور یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ اپنے آخری دنوں میں محمد حسن عسکری جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ پر روشنی ڈالنے لگے تھے، جس کا بین ثبوت ان کی کتاب "جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ"(اشاعت اول 2018) ہے اور انہیں احساس ہوا کہ بہت سارے مغربی تصورات نے دین کے سلسلے میں کئی طرح کی گمراہیاں پیدا کردیں۔ خصوصاً وہ اسلامی شعور کے داعی ہوگئے۔" چنانچہ آج کے میرے مقالے کا موضوع بھی یہی ہے۔ "محمد حسن عسکری کا تصورِ ادب"، اسی لیے اب قدرے تفصیل سے مذکورہ موضوع پر گفتگو کی جارہی ہے۔

محمد حسن عسکری کے افکار و نظریات، خیالات و تصورات مختلف ادوار میں مختلف انداز سے تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ ان کی تحریروں کا اگر ہم زمانی تسلسل کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں، تو ہمیں بہت حیرت ہوتی ہے۔ اس تناظر میں شہزاد منظر کا ایک قول بہت اہم ہے۔ "محمد حسن عسکری 1940 کے عشرے میں یعنی اپنی ادبی زندگی کے بالکل ابتدائی دور میں سوشلسٹ تھے، پھر خالص ادب اور فن برائے فن کے علمبردار بن اگئے، قیامِ پاکستان کے فوراً بعد قومی، اسلامی اور تعمیری ادب کے قائل ہوگئے۔ کچھ وقت تک یہ مغرب اور مغربی ادب کے بھی بہت پُر جوش حامی تھے، لیکن 1960 کی دہائی میں یہ مغرب سے بھی بے زار ہوگئے اور مغرب کو مکمل طور پر مسترد کرنے کے بعد انہوں نے تصوف کا مسلک اختیار کیا اور ادب سے قطعاً کنارہ کشی اختیار کر لی۔"

ندیم احمد نے بھی اپنے ایک مضمون (مشمولہ سہ ماہی "اُردو ادب"صفحہ نمبر 84) بہ عنوان "محمد حسن عسکری : سوانح اور شخصیت" میں ان کے انہیں خیالات کا تذکرہ کیا ہے۔ ندیم احمد کے بقول "محمد حسن عسکری روایت کے تلاش میں ابن عربی، مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، مولانا اشرف علی تھانوی اور رینے گینوں تک پہنچ چکے تھے۔" (بحوالہ سہ ماہی"اُردو ادب" صفحہ نمبر 117-116)

محمد حسن عسکری کے تصورِ ادب پر گفتگو کرنے سے پہلے ہمیں ان کے نزدیک پائے جانے والے مشرقی و مغربی ادب کے فرق کو بھی جاننا ضروری ہے، تاکہ ہم محمد حسن عسکری کے تصورِ ادب کو صحیح طریقے اور درست تناظر میں سمجھ سکیں۔ "مشرق اور مغرب کی آویزش"(اُردو ادب میں) نامی اپنے ایک مضمون(مشمولہ، وقت کی راگنی) میں یہ اپنی بات میکالے (1800-1859) اور ابن رشیق(999-1064) سے شروع کرتے ہیں اور مشرق و مغرب کے ادبی اختلاف کو ہم آمیز و ہم آہنگ کرنے کے لیے اپنی رائے پیش کرتے ہیں۔ "اگر ہم مشرقی ادب کی روح بر قرار رکھنی چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیئے کہ مادی علوم کے معاملے میں وہیں رہیں جہاں ہمیشہ سے ہیں، مشرق کی روح زندہ رہے گی یا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ادب بھی مغربی بن جائے تو بس تھوڑے سے انتظار کی ضرورت ہے، ہم ذرا دل لگا کے محنت کریں تو چالیس پچاس سال میں ہم بھی مغرب کے برابر پہنچ سکتے ہیں پھر ہمارے ادب کی روح بھی خود بخود مغربی ہو جائے گی۔"(صفحہ نمبر، 08)� محمد حسن عسکری اپنی اس رائے کی توثیق کے لیے مذکورہ مضمون میں اور بھی کئی پہلو سے اپنی بات مدلّل بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی عملی طور پر ایسا ممکن ہے ؟ اس سوال کا جواب ان کے تصورِ ادب میں ہی مضمر ہے۔

اب آئیے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ محمد حسن عسکری کا تصورِ ادب کیا ہے؟ یہ اپنی کتاب "وقت کی راگنی" میں لکھتے ہیں:
"ہر ادب کی بنیاد حقیقت کے ایک خاص تصور پر ہوتی ہے، اور اسالیبِ بیان اسی بنیادی تصور سے نکلتے ہیں۔ لہذا ان کی حیثیت ثانوی ہے، اور اس تصور سے الگ ہونے کے بعد ان میں جان نہیں رہتی۔" (صفحہ نمبر، 15)
پھر مزید لکھتے ہیں:
"اس ساری بحث کا مقصد یہ ہے کہ حقیقت کے اس تصور کو نظر میں رکھے بغیر آپ مشرق کے ادب کی روح کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اس سے آگے جتنی اوضاع، اسالیبِ بیان، تشبیہات و استعارات ہیں وہ سب ثانوی اور خارجی چیزیں ہیں۔ اگر آپ اس تصور کو نہیں مانتے تو آپ مشرقی روح بھی ادب میں برقرار نہیں رکھ سکتے۔ اس تصور کو چھوڑ دینے کے بعد تو صرف تین ہی صورتیں ممکن ہیں۔ یا تو آپ اس تصور کے ساتھ ساتھ مشرق کے سارے اسالیب بیان سے بھی کنارہ کش ہو جائیں، اپنی ادبی روایت سے بھی قطع تعلق کر لیں، اور جہاں سے جی چاہے نئے عناصر لے کر ایک نئی طرح کا ادب پیدا کریں۔ یا پھر اصلی اور بنیادی معانی کو چھوڑ کے خارجی اسالیب دہراتے رہیں۔ اس طرح ادب میں چھلکا ہی چھلکا رہ جائے گا، مغز غائب ہو جائے گا۔ ویسے بھی یہ صورتِ حال زیادہ دن تک نہیں چل سکتی۔ آپ محض خارجی اسالیب کی تکرار جاری رکھیں تو یا تو آہستہ آہستہ ادب بالکل مر جائے گا یا پرانے اسالیب میں نئے معنی خود بخود آنے لگیں گے، اور نئے معانی کے ساتھ اسالیب بھی بدلنے لگیں گے، اور آخر ایک نئی قسم کا ادب نمودار ہو جائے گا۔ بہر حال جس چیز کو آپ اپنا مشرقی ادب کہتے تھے وہ باقی نہیں رہے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ آپ خارجی اسالیب تو وہی پرانے رکھیں، لیکن ہر چیز کو معنیٰ دوسرے دیں، یہاں بھی نتیجہ وہی ہوگا جو دوسری صورت میں ہوا تھا۔ یا تو مکمل انتشار یا ایک دوسری قسم کے ادب کی نمود"
(صفحہ نمبر 15-14)

معروف نقاد ممتاز شیریں(1924-1973) محمد حسن عسکری کے بارے میں کہتی ہیں کہ ”ہم عصر ادب پر اثر انداز ہونا اور اپنی تنقیدی فکر سے اپنے دور کے لکھنے والوں کو متاثر کرنا بڑی بات ہے۔ ہمارے ناقدوں میں سوائے عسکری صاحب کے شاید ہی کسی کے بارے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے۔“ بحوالہ، محمد حسن عسکری اور جدید ادبی شعور : انعم طاہر (پی ایچ ڈی مقالہ)، نگران ڈاکٹر محمد خان اشرف، شعبۂ اردو، جی سی یونیورسٹی، لاہور، (صفحہ نمبر، 498)

محمد حسن عسکری اردو تنقید کے معمار سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی حیثیت بطورِ نقاد قطعی منفرد ہے۔ محمد حسن عسکری تنقید کے ایک اسکول تھے۔ جاندار، قوی اور خالص علمی انداز ان کی تنقید کا بنیادی وصف ہے۔ ان کے نگارشات کے پس منظر میں اردو تنقید نے کئی محاذ سر کیے اور نئی دنیا بسائی۔ محمد حسن عسکری کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ادب کے سلسلے میں ان کے تصورات و نظریات مستعار لیے ہوئے نہیں بلکہ ان کے اپنے مسلسل غور و خوض، شعور و وِجدان، متواتر عملِ پیہم اور فہم و فراست کا نتیجہ تھے۔ یہ تدبر و تفکر تا حیات جاری و ساری رہا اور مطالعہ و مشاہدہ بھی، اسی لیے ان کے تصورات مسلسل تبدیلی سے دو چار ہوتے رہے۔ یہ انگریزی ادب کے معلم تھے، بطورِ خاص انہیں انگریزی ادب کے مطالعے کے مسلسل مواقع ملے، لیکن یہ انگریزی ادب سے مرعوب نہیں ہوئے۔ محمد حسن عسکری کئی حیثیتوں کے مالک تھے، مگر سب سے زیادہ اہمیت ان کی تنقید نگاری کو حاصل ہے، تاہم ان کی تنقید جتنی توجہ کی مستحق تھی اس سے محروم رہی۔ شاید اس کا سبب ان کا تیکھا، طنز آمیز اندازِ بیان ہے کہ اس کی زَد سے بہت کم ہی مصنف بچے ہوں گے۔ تاہم مختصر طور پر اگر ہم یہ کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ اُردو تنقید محمد حسن عسکری کو نظر انداز نہیں کرسکتی اور ان کی تنقیدی کتابوں کا مطالعہ ادب کے طالب علموں کے لیے مفید رہے گا۔

حوالہ جات
(01) محمد حسن عسکری کا تعارف "ریختہ" اور ندیم احمد کے مضمون "محمد حسن عسکری : سوانح اور شخصیت" (مشمولہ سہ ماہی"اُردو ادب" صفحہ نمبر 84) سے حذف و اضافے کے ساتھ حاصل کیا گیا ہے۔
(02) وقت کی راگنی : محمد حسن عسکری، مکتبہ محراب، لاہور، 1979، ناشر، احمد مشتاق، مطبع منظور پریس لاہور
(03) مشرق کی باز یافت(محمد حسن عسکری کے حوالے سے): انتخاب و مقدمہ، ابوالکلام قاسمی، نئی نسلیں، پبلیکیشنز شمشاد مارکیٹ علی گڑھ،مارچ 1982، ناشر، فائن آفسٹ ورکس، الہ آباد
(04) سہ ماہی اُردو ادب(خصوصی شمارہ)، شمارہ نمبر 252، جلد نمبر 63، (اکتوبر تا دسمبر 2019)، ایڈیٹر اطہر فاروقی

(*مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں۔)