عمر کوٹ کے این اے 213 پر مسلسل 15 سالوں سے ٹالپر خاندان حکومت کرتا آ رہا ہے۔کچھ دن قبل پاکستان پوپلیس پارٹی کے ایم این اے نواب یوسف ٹالپر کا انتقال ہو گیا، پھر ضمنی انتخابات کے لیے اسی خاندان سے ان کی اہلیہ صباء ٹالپر صاحبہ کو ٹکٹ دیا گیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے صباء ٹالپر صاحبہ کو کس بنیاد پر ٹکٹ دیا گیا ہے؟ کیوں کہ وہ سیاست سے لا علم ہے نہ ان کے پاس سیاست کا تحربہ ہے نہ انہوں نے کبھی عمر کوٹ کی عوام کے مسائل حل کرنے کو ترجیح دی، کیا وہ ووٹ لینے کے لئے اہل ہیں ؟۔
اس وقت عمر کوٹ اور اس کے آس پاس دیہاتوں میں دو سب سے بڑے مسائل ہیں.
ایک وہاں کے بہت سے دیہاتوں میں پینے کے لئے پانی نہیں ہے۔پانی کی قلت پوری کرنے کے لئے خواتین تپتی ہوئی ڈوپ میں کئی کئی میل کا سفر کر کے پانی لاتی ہیں. آج تک پانی کا مسئلہ حل نہیں ہوا. اتنا سفر کر کے خواتین پانی کیسے لاتی ہیں، ان کو پتہ ہے کہ ان پر کیا گزرتی ہے۔
دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عمر کوٹ کے آس پاس دیہاتوں میں لڑکیوں کی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے. آج کی جدید دنیا میں تعلیم جتنی ایک لڑکے کے لئے ضروری ہے اتنا ہی ایک لڑکی کے لئے بھی ضروری ہے۔ صرف اچھی تعلیم کی کمی نہیں بلکہ ایک اچھا اسکول اور کالج تک نہیں ہے. کبھی بھی وہاں کے ایم این اے نے آ کر یہ نہیں پوچھا کہ یہاں پر اسکول کیوں نہیں ہے. پھر وہ آج ووٹ لینے کے لئے کیوں آ رہے ہیں؟ جب انہوں نے عوام کے مسائل حل نہیں کیے تو ووٹ کس بنیاد پر مانگ رہے ہیں؟
دوسری طرف آزاد امید کے طور پر کھڑے لال چند مالهی صاحب ہیں، جن کا تعلق اقلیت سے ہے لیکن اکثریت والے بھی لال چند مالهی کو پسند کرتے ہیں. ان کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے اور پی ٹی آئی اس وقت ایک بڑی جماعت ہے. اس وقت اگرچہ پی ٹی آئی پر پابندی ہے، لیکن عمرکوٹ کے نوجوانوں پر کوئی پابندی نہیں ہے.اب عمر کوٹ کا نوجوان چاہتا ہے کہ کچھ تبدیلی آئے۔وہاں کے نوجوان کو لگتا ہے کہ لال چند مالهی ایک بہترین امیدوار ہے لیکن سوال یہ ہے کیا لال چند مالهی کامیاب ہو جائیں گے ؟
حلقہ میں اقلیت کا ووٹ اکثریت سے زیادہ ہے، اقلیتی ووٹ %51 ہے لیکن کیا اقلیت کے سارے ووٹ لال چند مالهی کو جائیں گے؟یہ سب سے بڑا سوال ہے. پیپلز پارٹی کا عمر کوٹ میں ووٹ بنک اچھی تعداد میں موجود ہے لیکن آج کل سندھ میں بڑا مسئلہ کینال کا ہے، جسے پیپلزپارٹی حل کرنے میں ناکام ہے، بلکہ شبہ ہے کہ یہ سب اس کی تائید سے ہوا ہے. اس کا فائدہ لال چند مالهی صاحب کو ہو سکتا ہے. اس کے علاوہ 15 سالوں سے ٹالپر خاندان نے عمر کوٹ کے لیے کچھ بھی نہیں کیا ہے کہ اب اس سے کوئی امید لگائی جا سکے کہ آنے والے وقت میں وہ کچھ کریں گے. صرف اور صرف وعدے کیے ہیں وہ بھی جھوٹے۔ اس بار عمر کوٹ کا نوجوان تبدیلی کے لیے پرعزم ہے. دیکھتے ہیں کہ 17 اپریل کو کیا نتیجہ نکلتا ہے.
تبصرہ لکھیے