ہوم << انعام والی رات اور دن کا ایمان افروز تذکرہ - ڈاکٹر مولانا محمد جہان یعقوب

انعام والی رات اور دن کا ایمان افروز تذکرہ - ڈاکٹر مولانا محمد جہان یعقوب

رمضان المبارک کے بابرکت اور مقدس مہینے کے اختتام پر آنے والی رات خصوصی برکتوں ، رحمتوں ، بخشش و مغفرت اور نہایت فضیلت کی حامل ہے، جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ اس ماہ مبارک کی تمام راتوں سے زیادہ سخی اور فیاض ہو کر اپنے بندوں کی مغفرت فرماتا ہے،مگر یہ کم نصیبی کی بات ہے کہ لوگ عموماً اس سے غافل رہتے ہیں اور یوں اس عظیم رات کی فیوض و برکات سے محروم رہتے ہیں۔

حدیث مبارکہ میں اس رات یعنی شب عید کو لیلۃ الجائزہ (انعام کی رات)سے پکارا گیا ہے،جس میں ایمان و احتساب کے ساتھ ثواب کی نیت سے عبادت کرنے والوں کے لیے بڑی سعادتیں اور خوش خبریاں ہیں کہ جو اس ماہِ مبارک میں اپنی عبادات اور روزوں سے اس ماہ مقدس کی برکات و فضائل سے فیض یاب ہوئے،اللہ کی رحمت اور مغفرت کو اپنے لیے واجب کرلیا،جہنم سے خلاصی کا پروانہ حاصل کیا اور یوں اللہ تعالیٰ کی تجلیات، انوارات اور انعامات کے حق دار ٹھہرے۔

لیلۃ الجائزہ پر فرشتوں میں بھی خوشی کی دھوم مچی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان پر تجلی فرما کر دریافت فرماتا ہے: اس مزدور کی اجرت کیا ہے، جس نے اپنی مزدوری پوری کرلی؟ تو فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اسے پوری پوری جزا اور اجرت ملنی چاہیے۔ اس پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اے فرشتو! گواہ رہو، میں نے امتِ محمدیہ ﷺ کے روزے داروں کو اجرت دے دی، یعنی روزے داروں کو بخش دیا۔

حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ امام الانبیاء حضرت محمدﷺ نے فرمایا: رمضان کی آخری رات میں روزے داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کیا یہ شب مغفرت شبِ قدر ہے۔آپﷺ نے فرمایا: نہیں بلکہ (اللہ کا)دستور یہ ہے کہ مزدور کا کام ختم ہونے کے وقت اسے مزدوری دے دی جاتی ہے۔(مسند احمد، بزار،بیہقی)

لیلۃ الجائزہ خصوصیت سے عبادت میں مشغول رہنے کی ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: جو شخص ثواب کی نیت (یقین)کرکے دونوں عیدوں (عیدالفطر اور عیدالاضحی)میں جاگے (اور عبادت میں مشغول رہے)اس کا دل اس دن نہ مرے گا (مردہ نہ ہوگا)جس دن سب کے دل مرجائیں گے (یعنی فتنہ و فساد کے وقت اور قیامت کے ہولناک اور دہشت ناک دن میں یہ محفوظ رہے گا)(ابن ماجہ)

ایک اور حدیث مبارکہ میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : جو شخص پانچ راتوں میں (عبادت کے لیے)جاگا۔ اس کے واسطے جنت واجب ہوجائے گی:لیلۃ الترویہ یعنی8ذی الحجہ کی رات،لیلۃ العرفہ یعنی9 ذی الحجہ کی رات،لیلۃ النحریعنی 10ذی الحجہ عیدالاضحی کی رات،لیلۃ الجائزہ یعنی عیدالفطر کی رات اورشب برأت یعنی پندرہ شعبان کی رات(ترغیب و ترہیب)

یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ اور ہمارے اسلافؒ ان راتوں کی قدر فرماتے اور اس میں عبادت،ذکر و اذکار اور دعا و مناجات کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے ۔فقہا نے بھی عیدین کی راتوں میں جاگنا مستحب لکھا ہے۔

لیلۃالجائزہ اللہ رب العزت کے خصوصی فضل و کرم کی بڑی عظمت و فضیلت والی رات ہے، جو اللہ تعالیٰ کے طرف سے امت محمدیہﷺ کو ایک خصوصی تحفہ ہے جس کی اس کے بندوں/مسلمانوں کو بے حد قدر کرنی چاہیے اور اس مبارک شب کے قیمتی اور بابرکت لمحات کو خرافات میں ضائع کرنے کے بجائے توبہ و مناجات، اللہ کے ذکر و اذکار،نوافل اور دعائوں میں بسر کیا جائے،عموماً لوگ اس رات میں شب بیداری کرکے عبادات کا کوئی اہتمام نہیں کرتے، جو بڑی محرومی کی علامت ہے،بلکہ اس رات کو سیرو تفریح، ہوٹلوں میں کھانے پینے، گانے سننے اور بازاروں میں خریداری کی نذر کردیتے ہیں، یہاں تک کہ بعض تاجرکاروبار میں اس قدر مشغول رہتے ہیں کہ نماز عید تک نکل جاتی ہے، لہٰذا پوری کوشش کریں کہ یہ مبارک رات کسی قیمت خرافات کی نذر ہوکر ضائع نہ ہونے پائے۔ہم نے مہینے بھر، رب کریم کے ساتھ جو تعلق استوار کرنے کی سعی کی،اس رات کو اللہ تعالیٰ سے معافی، بخشش، مغفرت اور جہنم سے آزادی کے پروانے حاصل کرنے میںصرف کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ مہینے بھر کی ہماری محنت اور جدوجہد جوکہ ہم نے اپنے رب سے اپنے ٹوٹے ہوئے رشتے کو استوار کرنے میں صرف کی اور اب جب کہ ہمارا رب ہم سے راضی ہورہا ہے،اپنے مؤمن بندوں اور بندیوں پر انعامات کی برکھا برسانے والا ہے،ہمارے کسی معمولی نافرمانی والے عمل سے خدانہ خواستہ ضائع ہوجائے، لہٰذا شب عیدالفطر کو اللہ تعالی سے اس کی عافیت و سلامتی ، مغفرت اور حمت طلب کرتے ہوئے خوب یادِ الٰہی میں گزارنا چاہیے۔

روزوں کی تکمیل پر عیدالفطر منائی جاتی ہے۔عیدا لفطر صرف ایک جشن مسرت ہی نہیں بلکہ ایک عبادت ہے۔ یہ ایک بہت بڑی عبادت ، یعنی روزہ کا اختتام ہے۔ عیدالفطر کے دن اللہ تعالیٰ کے دربار میں ماہ رمضان دنیا میں پورے تیس دن تک اپنے قیام کی رپورٹ پیش کرتا ہے۔ فطرہ ادا کرنے کے بعد عیدالفطر کی سب سے پہلی مشغولیت عید کی نماز ہے جو اللہ تعالیٰ کے حضور میں بطور شکرانہ ادا کی جاتی ہے۔

مسئلہ :عیدین یعنی عیدالفِطر اور بقرہ عید کی نماز واجِب ہے، مگر سب پر نہیں صِرف ان پر جن پر جمعہ واجِب ہے۔ عِیدین میں نہ اذان ہے نہ اِقامت ۔ عیدالفِطر میں دیر کرنا اور عیدالاضحی جلد پڑھنا مستحب ہے۔
حضرتِ سیِدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ عِید الفِطر کے دِن کچھ کھا کر نمازکیلئے تشریف لے جاتے تھے اور عیدِ الاضحی کے روز نہیں کھاتے تھے جب تک نماز سے فارِغ نہ ہو جاتے ۔بخاری شریف کی رِوایت حضرتِ سیِدنا انس رضی اللہ عنہ سے ہے کہ عِید الفِطر کے دِن تشریف نہ لے جاتے جب تک چند کھجوریں نہ تناول فرما لیتے اور وہ طاق ہوتیں۔

مسئلہ:مسجد میں عید کی نماز پڑھنا خلافِ سنت ہے۔اللہ کے رسولﷺ کی سنت یہ رہی ہے کہ عید کی نماز آبادی سے باہر کھلی جگہ میں ادا فرماتے تھے ، خلفائے راشدینؓ کا بھی اسی پر عمل رہا ہے۔ اسی لیے علما نے بغیر کسی عذر کے مسجد میں عید کی نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحرا اور میدان میں نمازِ عید پڑھنا نبی کریمﷺکی سنت ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ بارش کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ نے نمازِ عید مسجد میں پڑھائی۔مقامِ غور ہے کہ مسجد نبوی میں ایک نماز پچاس ہزار نمازوں کا ثواب رکھتی ہے، پھر بھی حضور ﷺ اس کو چھوڑ کر عید کی نماز باہر پڑھتے تھے۔ معلوم ہواکہ نمازِ عید میدان اور صحرا میں پڑھنی چاہیے۔ بلا عذر مسجد میں نمازِ عید پڑھنا خلافِ سنت ہے۔

مسئلہ:عید کی نماز سے پہلے مسواک کرنا، غسل کرنا ، خوشبو استعمال کرنا اور اچھے سے اچھا کپڑا پہننا چاہیے۔ سنت طریقہ یہ ہے کہ نمازِ عید کے لیے پیدل جایا جائے۔
مسئلہ:عید الفطر کی نماز کے لیے جاتے ہوئے راستے میں آہستہ آواز سے یہ تکبیر(اللہ اکبر،اللہ اکبر،لا الہ الا اللہ واللہ اکبر،اللہ اکبر وللہ الحمد) پڑھتے رہنا چاہیے۔

عیدکی نماز کا مکمل طریقہ
نیت اس طرح کرے۔’’نیت کی میں نے دو رکعت نماز واجب عید الفطر یا عید الاضحی کی ،ساتھ چھ زائد تکبیروں کے، واسطے اللہ تعالیٰ کے، پیچھے اس امام کے، منہ میرا کعبہ شریف کی طرف ، پھراللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے پھر ثنا پڑھے پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑ دے۔پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہہ کر چھوڑ دے۔پھر ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے۔ پہلی تکبیر میں ہاتھ باندھے اس کے بعد دو تکبیروں میں ہاتھ لٹکائے پھر چوتھی تکبیر میں ہاتھ باندھ لے اس کو یوں یاد رکھیں کہ جہاں تکبیر کے بعد کچھ پڑھنا ہے وہاں ہاتھ باندھ لیے جائیں اور جہاں پرھنا نہیں ہے وہاں ہاتھ چھوڑ دیے جائیں۔ جب چوتھی تکبیر پر ہاتھ باندھ لے تو امام اعوذ باللہ و بسم اللہ آہستہ پڑھ کر زور سے الحمد اور سورت پڑھے پھر رکوع کر کے ایک رکعت پوری کرے۔جب دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو تو پہلے الحمد اور سور پڑھے پھر تین بار کان تک ہاتھ لے جا کر اللہ اکبر کہے اور ہاتھ نہ باندھے اور چوتھی بار بغیر ہاتھ اٹھائے اللہ اکبر کہتا ہوا رکوع میں جائے۔اس سے معلوم ہو گیا کہ عیدین میں زائد تکبیریں چھ ہوئیں: تین تکبیریں پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے اور تکبیر تحریمہ کے بعد اور تین تکبیریں دوسری رکعت میں قرأت کے بعد اور رکوع کی تکبیر سے پہلے اور چھ تکبیروں میں ہاتھ اٹھائے جائیں گے اور ہر دو تکبیروں کے درمیان تین تسبیح پڑھنے کے برابر سکتہ کرے ۔ مسئلہ:نماز کے بعد امام دو خطبے پڑھے۔ جمعہ کے خطبے میں جو چیزیں سنت ہیں وہ عیدین کے خطبے میں بھی سنت ہیں اور جو باتیں جمعہ کے خطبے میں مکروہ ہیں وہ عیدین کے خطبے میں بھی مکروہ ہیں۔ صرف دو باتوں میں فرق ہے :ایک یہ ہے کہ جمعہ کے پہلے خطبہ سے قبل خطیب کا بیٹھنا سنت تھا اور اس میں نہ بیٹھنا سنت ہے۔ دوسرے یہ کہ اس میں پہلے خطبے سے قبل نوبار، اور دوسرے خطبے سے قبل سات بار، اور ممبر سے اترنے سے پہلے چودہ بار، اللہ اکبر کہنا سنت ہے اور جمعہ میں نہیں۔

مسئلہ:امام نے نماز پڑھ لی اور کوئی شخص باقی رہ گیا خواہ وہ شامِل ہی نہ ہوا تھایا شامِل تو ہوا مگر اس کی نماز فاسد ہو گئی تو اگر دوسری جگہ عید کی نماز باجماعت مل جائے پڑھ لے ورنہ بغیر جماعت کے نہیں پڑھ سکتا ۔ہاں بہتر یہ ہے کہ یہ شخص چار رکعت چاشت کی نماز پڑھے۔

مسئلہ :نمازِ عیدکے بعد اپنے دوستوں، ساتھیوں اور پڑوسیوں کو عید کی مبارکباد دینا جائز ہے، خصوصاً جس جگہ یہ رسم چلی آرہی ہو، لیکن اسے عبادت کی حیثیت نہ حاصل ہو بلکہ صرف عادت کے طور پر لوگ کسی بھی خوشی کے موقع پر آپس میں ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرتے ہوں جیسا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں آتا ہے کہ جب وہ عید سے واپس ہوتے تو ایک دوسرے سے کہتے تھے:اللہ تعالیٰ ہم سب کی عید اور دیگر اعمال صالحہ قبول فرمائے ۔(مجمع الزوائد)

Comments

Avatar photo

مولانا محمد جہان یعقوب

ڈاکٹر مولانا محمد جہان یعقوب فاضل درسِ نظامی ہیں۔ وفاقی اردویونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ جامعہ بنوریہ عالمیہ کراچی میں پبلی کیشنز، تصنیف اور صحافت کے شعبہ جات کے نگران ہیں۔ کئی کتب، رسائل اور ریسرچ جرنلز کے مصنف ہیں۔ اصلاحی و تحقیقی موضوعات پر سو سے زائد رسائل لکھ چکے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا سے بطور کانٹنٹ رائٹر، کمپیئر اور اینکر منسلک ہیں۔

Click here to post a comment