انسانی معاشروں کی بقا کا انحصار بہت ساری چیزوں پر ہے۔ جہاں روٹی دال زندگی کے لیے ضروری ہے وہیں کچھ احساسات ہیں جو زندگی کی علامت ہیں. زندگی بذات خود ایک خوبصورت احساس کا نام ہے۔جینے کا احساس جینے کے لیے محنت مشقت اور کچھ پا لینے کا احساس زندگی کو پرسکون اور خوبصورت بنا لینے کا احساس اور۔۔۔۔ اور تحفظ کا احساس۔ ہر انسانی بستی بجا طور پہ خواہش رکھتی ہے کہ اس کے بنیادی حقوق پہ کوئی ڈاکہ نہ ڈالے ۔ انسانوں کی اس فطری خواہش کے پیش نظر انسانی حقوق کے ادارے تشکیل پاتے ہیں۔
لیکن۔۔۔۔۔۔ اگر یہ ادارے یہ تنظیمیں ہی منہ سی لیں تو کیا ہوگا؟؟ وہی ہوگا جو ہورہا ہے یعنی معاشروں میں احساسِ عدم تحفظ کی پیدائش۔
روم کے پانیوں کے قریب ایک بستی ہے جہاں آدم خور۔۔۔ انسانی خون کے پیاسے گزشتہ ڈیڑھ سال سے انسانوں کو نگل رہے ہیں ۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔ایک نہیں پچاس نہیں ہزار نہیں پچاس ہزار انسانوں کا خون پی گئے۔۔۔۔ معصوم بچوں کو بھی ذبح کرڈالا۔۔۔ دس بیس نہیں۔۔۔۔۔ تقریبا بیس ہزار ننھے وجود ان آدم خوروں کی آدم دشمنی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔
اور۔۔۔۔۔ دنیا ہے کہ مکمل طور پہ خاموش۔۔۔۔ تمام انسانی حقوق کے ادارے مجرمانہ حد تک خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں عام ادمی حیران اور پریشان ہے کہ یہ مغربی اور یورپی حکومتیں اس قدر تنگ نظر متصب اور اس قدر پیاسے خون مسلم کے ہو سکتے ہیں ڈیڑھ سال سے قابض اسرائیل انکی زمینوں پہ جبری قبضے کے علاوہ انھیں گاجر مولی کی طرح کاٹ رہا ہے۔۔۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں حتی کہ اقوام متحدہ تک خاموش ۔۔۔ مکمل خاموش۔۔۔۔
ٹرمپ تو جو ایجنڈا لے کے آیا۔۔۔۔ وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔۔۔
لیکن کم ز کم ان اداروں کو سانپ کیوں سونگھ گیا؟؟
کیا آپ کے دستور اور لائحہ عمل میں یہ لکھا ہے کہ انسانی حقوق کی اس پامالی پہ لب کشائی کرنی ہے جس کے لیے ٹرمپ اجازت دے۔۔۔۔؟؟
آہ۔۔۔۔ کس قدر گھٹیا ہے تمھارا ضابطہ تمھارا لائحہ عمل۔۔۔
انسانی حقوق کے دعویدارو! تمھارے سینے کے بائیں طرف گوشت کا ایک لوتھڑا خالق نے دھک دھک کرنے کے لیے رکھا تھا ۔۔۔۔ اگر اس کی یہ صدا بند نہیں تو خدارا اس تصویر کی طرف دیکھو۔۔
یہ ہے فلسطینی کم سن قیدی طارق ابوخضیر ۔اسرائیلی عدالت میں پیش ہوا ہے چہرے پہ تشدد کے واضح نشانات۔ کیا واقعی تم اس قدر ڈھیٹ اور پتھر ہو چکے کہ اس بچے کے حق میں ہمدردی کا ایک حرف تک تمھاری زبان پہ نہ آسکا۔؟تمھارے دستور میں اس بچے کے لیے کوئی حقوق نہیں؟ ۔
ایک اور تصویر دنیا کے ہر اس فرد کے لیے جو انسانیت کا نام لیتا ہے. یہ چند دن پہلے کی تصویر ہے۔180معصوم بچوں کی تصویر۔ جب دنیا بھر کے مسلمان اپنے اپنے گھروں میں سحری کررہے تھے ۔ ظالم اسرائیل نے غزہ کی گلیوں میں خون کے دریا بہادیے۔ایک گھنٹے میں۔۔۔۔ جی ہاں صرف ایک گھنٹے میں 180 معصوم بچوں کو خون میں لت پت کر دیا۔یہ قتل عام دنیا بھر کے لوگوں نے اپنی سکرینز پہ دیکھا۔۔۔۔
اسرائیل اقوام متحدہ کی( ٹھنڈی ٹھنڈی نرم نرم) مذمت کو خاطر میں نہیں لاتا ، دنیا بھر میں لوگ اس صریح ظلم کے خلاف سڑکوں پہ نکلے، اسرائیل کو اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں۔۔۔
یہی امر تیسری دنیا کے عوام کے اندر شدید غم وغصے کے ساتھ ساتھ عدم تحفظ کے احساس کو پیدا کر رہا ہے ۔یعنی کل کلاں کو یہ امریکا کا چہیتا کسی اور ملک پہ میزائل داغنا شروع کردے کہ ، بس ہم آزاد ہیں جو چاہیں کریں۔۔۔
مقبوضہ فلسطین کے اس قابض کا ہمدرد سارا عالم کفر ہے۔۔۔
حالیہ دنوں میں اسرائیل نے حماس کے خلاف جو پراپیگنڈا مہم شروع کر رکھی ہے. اس میں BBCاور Reuters نے بڑھ چڑھ کر جھوٹ کو فروغ دیا۔ حالانکہ associated press نے اس جھوٹ کا پول کھول دیا۔ لیکن بہرحال یہ صورتحال انتہائی تکلیف دہ ہے۔۔ لوگ بجا طور پہ سوچنے لگے ہیں کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ بس رہے ہیں جس میں حقوق اور آزادی اور انصاف صرف بڑے ممالک کے چہیتوں کے لیے ہے باقی ساری دنیا کے لیے ایک ہی قاعدہ ہے اور وہ ہے 'جس کی لاٹھی اس کی بھینس'۔۔۔ جو قوم اپنی زمیں اپنی بقا کے لیے جدوجہد کرے گی نسل کشی اس کا مقدر ٹھہرے گی۔
~کیا جس نے گِلہ۔۔
ملی اور سزا۔۔
کئی بار ہوا یہاں خونِ وفا۔۔۔
اک ہم ہی نہیں ۔۔
جسے دیکھو یہاں۔۔
وہی آنکھ ہے نم۔۔۔
جانے کب ہوں گے کم
تبصرہ لکھیے