ہوم << یہ کیسا درس کیسا سبق ہے؟ ڈاکٹر ماریہ نورین

یہ کیسا درس کیسا سبق ہے؟ ڈاکٹر ماریہ نورین

آج گاؤں کے ایک گھر سے درس کا بلاوا آیا ۔
جانا ضروری تھا۔ جب پہنچی تو جواں سال مبلغہ بڑی خوب صورت تلاوت کر رہی تھی۔ تلاوت کے بعد نعت پڑھی اس کے بعد درس شروع ہوا ۔ آغاز اچھا تھا ۔ عقیدہ توحید کے حوالے سے بات کی ، کمزور اعتقاد پر بات کی ۔ اس کے بعد ولادتِ رسول سے پہلے اور بعد کےمبالغہ آمیز حالات بیان کیے جس میں بہت سی کہانیاں شاید وہ خود گھڑ کے سنا رہی تھی، نہیں تو سنی سنائی تھیں۔کیونکہ میں نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتب میں ایسا کچھ نہیں پڑھا۔ پھر حضرت خدیجہ کی شان بیان کرتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادیوں کا ذکر کیا اور پھر کہیں اور ہی نکل گئی۔

غربت کو خوب خوب گلوری فائی کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کئی روز کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تھا۔ سارے جلیل القدر صحابہ غریب تھے ۔ ہمیں بھی دولت کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے، روکھی سوکھی جو گھر میں مل جائے کھا لینی چاہیے، نہ ملے تو صبر کرنا چاہیے ۔ دولت کمانے والوں کو جنت نہیں ملتی۔ اس حوالے سے کئی روایات بھی بیان کیں۔دولت انسان کو خدا سے دور کر دیتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ "رزقِ حلال عین عبادت ہے" والی بات البتہ گول کر گئی۔ بھوک انسان کو کفر تک لے جاتی ہے, ا س کا ذکر نہیں کیا ۔ نہ ہے الکاسب حبیب اللہ کی بات کی۔ جو خواتین اس اجتماع میں موجود تھیں ان میں اسی فیصد غریب تھیں۔ باقی کی بیس فیصد بھی درمیانے طبقے سے جہاں دولت کی ریل پیل تو ہر گز نہیں ۔

میرا سوال یہ تھا کہ پہلے سے غریب، جن میں سے اکثر غربت کی وجہ سے جہالت کا شکار ہیں، انہیں بے عملی کا درس دینا ٹھیک تھا؟ مشاہدے کی بات ہے کہ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے گھرانوں میں نہ دین کا فہم ہے نہ حلال حرام کا فرق۔ جوان نسل کو چھوڑ کر ادھیڑ عمر و بزرگ سب خواتین ان پڑھ ہیں، جن میں سے اکثر خواتین بنیادی اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ہیں ۔ ہمارے گاؤں میں صرف پڑھے لکھے لوگ روزے رکھتے ہیں باقی سب کو لگتا ہے کہ روزہ رکھنا مرضی کی بات ہے ، یہی حال نماز کی پابندی کا ہے۔ یہ خواتین اکثر صرف رمضان میں پابندی سے نماز پڑھتی ہیں باقی سال ملا جلا معاملہ رہتا ہے۔

وہاں سے ابھرکر محترمہ بیٹیوں کی تربیت پر جا پہنچیں ،جس کا لبِ لباب یہ تھا بیٹیوں کو گھرسے نہیں نکلنے دینا چاہیے، دنیاوی تعلیم معاشرے میں بگاڑ کا باعث ہے۔ جوان ہوتے ہی ان کی شادی کر دینی چاہیے۔ ورنہ ہر ماہ والدین جنت سے ایک ہزار سال دور ہوتے جاتے ہیں ۔ بیٹی کو ڈاکٹر ، ٹیچر یا انجینیر بنانا دین کے خلاف ہے۔ دوسرے لفظوں میں اپنی دھی نوں سکولوں ہٹا لے۔ ایک ایسا پسماندہ علاقہ جہاں بہت کٹھنائیوں کے بعد علم کی روشنی پہنچ رہی ہے، جہالت کم ہورہی ہے ۔ سکول کالج کی تعلیم کی بدولت دین کا فہم بھی آرہا ہے ۔ آپ کیا سکھانے آئی ہیں۔۔۔ اور کیوں؟ آپ انہیں وہ سب کیوں نہیں سکھا رہیں جو سکھانا چاہیے ؟ آپ انہیں حلال حرام کا فرق سکھائیں، اسلام میں صفائی کی اہمیت سکھائیں، نماز روزہ و دیگر فرائض کے حوالے سے شعور دیں۔ حقوق اللہ و حقوق العباد کے حوالے سے رہنمائی کریں۔اخلاقیات کے حوالے سے بتائیں ۔ بچوں کی تربیت پر بات کریں۔ جو کہ ان سادہ لوح خواتین کے کام آئے ۔ نہ کہ کہانیاں سنا کر انہیں مزید پسماندگی میں دھکیلیں۔

میری برداشت بس یہیں تک تھی ۔ میں وہاں سے اٹھ آئی، ہدیے کے لیے جو رقم اسے دینی تھی وہ دئیے بغیر ( کہ کہیں یہ دولت اس کی جنت چھننے کا سبب نہ بن جائے )۔