ہوم << عید کی خوشیاں اور عصر حاضر کے تقاضے - فخرالزمان سرحدی

عید کی خوشیاں اور عصر حاضر کے تقاضے - فخرالزمان سرحدی

پیارے قارئین!رحمتوں کی برسات سے بھرپور ماہ صیام بہت تیزی سے گزر رہا ہے۔اس ماہ مبارک میں اعتکاف،لیلة القدر،جمعة الوداع اور مغفرت کی گھڑیاں اور عید الفطر آنے ہی کو ہے۔یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ اللہ کریم کی عنایات کا ایک تسلسل جاری ہے۔یہ ماہ مبارک ختم ہونے میں چند ایام ہی باقی ہیں۔اور یکم شوال کا چاند نظر آنے سے عالم اسلام میں عید الفطر کی خوشیاں بھرپور انداز سے منائی جائیں گی۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس عید کو عیدالفطر کیوں کہا جاتا ہے؟اس سوال کا جواب بہت ہی پیارا ہے شاید آپ راقم سے بہتر وضاحت کریں لیکن میرا جواب تو یہی ہے کہ اس عید میں روزدار فطرانہ کی رقومات ادا کرتے ہیں تاکہ غرباء اور مساکین بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہوں۔یہ کتنا پیارا انداز ہے کہ ہر روزہ دار کا اور گھر میں موجود بچوں٬بچیوں٬عورتوں٬بزرگوں اور جوانوں سبھی کا فطرانہ عید کی نماز سے پہلے ادا کیا جاتا ہے۔عصر حاضر کے تقاضے بھی یہی ہیں کہ سماج اور معاشرے میں غریب٬مساکین اور محتاج لوگوں کو فطرانہ کی رقومات دی جائیں تاکہ یہ لوگ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔اس وقت معاشرتی زندگی کا سرسری جاٸزہ لیا جاۓ تو بے روزگاری اور افلاس کے ہاتھوں مجبور لوگوں کا خیال رکھا جاۓ۔اور صدقات کی رقومات بھی ان کو دی جائیں، زکوٰۃ بھی باقاعدگی سے ادا کی جاۓ۔احساس اور ہمدردی کے جذبات سے ہی دوسروں کا خیال رکھا جاتا ہے۔جس معاشرہ میں دوسروں کا احساس نہیں کیا جاتا وہاں خود غرضی جنم لیتی ہے۔

یہ حقیقت تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب دوسروں کے جذبات و احساسات کا خیال رکھا جاۓ تو اطمینان پیدا ہوتا ہے۔سکون فروغ پاتا ہے۔انسانیت کا معیار بھی تو یہی ہے کہ انسان ہمیشہ دوسروں کی خوشیوں میں شریک کرے۔رمضان کے بعد عید الفطر ایسا مذہبی تہوار ہے جو پوری دنیا میں مسلمان عزت و احترام سے مناتے ہیں۔ایک دوسرے کے ساتھ ملتے ہیں۔اچھے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔بچے ٬جوان اور سبھی اس مذہبی تہوار کا اہتمام کرتے ہیں۔عید کی خوشیوں میں دوسروں کی خوشیوں کو ترجیح دینا بہت بڑی بات ہے۔آپؐ نے ایک یتیم بچہ کو عید کی خوشی میں شریک فرما کر ایک روشن مثال قاٸم فرماٸی اور”یتیم بچے کی عید“کے عنوان سے دہراٸی جاتی ہے۔اس کے تناظر میں معاشرے میں بے شمار بچے اور بچیاں ہیں جو یتیمی کی زندگی بسر کرتی ہیں۔مجبور اور نادار افراد بھی مشکل سے شب و روز گزارا کرتے ہیں۔

ضرورت فقط اس بات کی ہے کہ عید کی آمد آمد ہے اپنے اپنے علاقوں میں جو مستحقین ہوں ان کی ہر طرح کی مالی اعانت کی جاۓ تاکہ وہ سب عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں ۔زندگی کے سفر میں ہمیشہ دوسروں کی خوشیوں کو ترجیح دی جاۓ تو اس کے بہت مثبت اثرات سامنے آتے ہیں۔امید کی جا سکتی ہے جس حد تک ممکن ہو گا ایک مقدس کام کرتے ہوۓ عید کی خوشیاں منائی جائیں گی۔