بحیثیت مسلمان، دین ہمیں اخلاقیات سکھاتا ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ غیر اسلامی ممالک میں اخلاقیات کی اعلیٰ مثالیں ملتی ہیں، جبکہ وطنِ عزیز میں دین کا بول بالا ہونے کے باوجود اخلاقی اقدار کی کمی دکھائی دیتی ہے۔ہم نمازیں بھی پڑھتے ہیں، ہمارے ہاں حفاظِ کرام اور علمائے کرام بھی موجود ہیں۔ ہم روزے بھی رکھتے ہیں اور دین پر عمل بھی کرتے ہیں۔ لیکن وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہمارے مساجد کے باہر جوتے غیر محفوظ ہیں, ہمیں واٹر کولر کے ساتھ گلاس باندھنا پڑتا ہے۔ اس بارے کچھ اہم وجوہات کو زیر بحث لاتے ہیں۔
ہمارے دین دار لوگوں نے دین کی تبلیغ کرتے کرتے قوم کو دو فرقوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک وہ طبقہ جو اپنے بچوں کو حافظ یا عالم بناتا ہے اور "دین دار طبقہ" کہلاتا ہے۔ جبکہ دوسرا طبقہ وہ ہے جو اپنے بچوں کو انگریزی تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی پڑھاتا ہے یا وہ اپنے بچوں کو کاروبار میں لے آتے ہیں۔ انہیں "دنیا دار" کہا جاتا ہے۔ اس طبقے کو دنیا داری کا ٹیگ دے دیا جاتا ہے۔ دین دار لوگ دنیا دار لوگوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ بس جی انہوں نے تو دنیا کو ہی سب کچھ کہا ہوا ہے۔ اور اس کے بدلے میں دنیا دار لوگ بھی اپنے اپ کو دنیا دار سمجھ کر دین داروں سے کنارہ کش ہوتے جاتے ہیں۔
دنیا دار لوگ خود کو دین سے اتنا دور سمجھنے لگتے ہیں کہ نہ وہ نماز کی پابندی کر پاتے، اور نہ دینی مسائل کے بارے میں علم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دین کا کام انہوں نے دین دار لوگوں کے لیے چھوڑا ہے کہ با جماعت نماز پڑھنی ہے تو کسی حافظ یا عالم سے کرائیں گے، جنازہ پڑھانا ہے تو اس کے لیے بھی حافظ صاحب قاری صاحب کو بلائیں گے۔ حالانکہ بحیثیت مسلمان، ہر فرد کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ جماعت بھی کرا سکے، جنازہ بھی پڑھا سکے اور میت کو غسل بھی دے سکے۔ بحیثیت پوری قوم، اچھا مسلمان بننے کے لیے یہ خلا ختم کرنا ہوگی۔ اگر کوئی سائنس، ٹیکنالوجی یا انگریزی پڑھ رہا ہے تو اسے بنیادی دین کا علم بھی ہونا چاہیے۔
دوسرا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے، کہ ہمارے اکثر دین دار لوگ رزق کو صرف نصیب سمجھ لیتے ہیں۔ اور ان کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ بس اللہ نے ہی رزق دینا ہے۔ ہمیں تو اپنی زندگی صرف اللہ کی بندگی میں گزارنی ہے اور دنیا سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہ عقیدہ اپنی جگہ درست ہے کہ رزق اللہ دیتا ہے، لیکن انبیائے کرام علیہم السلام نے بھی رزقِ حلال کے لیے محنت کی ہے۔مزدوری کی ہے، ہاتھ سے کام کیا ہے، اور کاروبار کیا ہے۔ انہوں نے یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ ان کے بعد آنے والے لوگوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہو، کہ رزقِ حلال کے لیے محنت کرنی ہے، نہ کہ صرف اللہ اللہ کرتے بیٹھ جائیں اور یہ عقیدہ بنا لیں کہ اللہ نے خود ہی سب کچھ دے دینا ہے۔
میرا یہ خیال ہے کہ ہماری بہت ساری معاشرتی برائیوں کی جڑ یہی ایک غلط فہمی ہے، کہ ہم محنتی کو حرص کرنے والا فرد سمجھتے ہیں۔ دین کی ترویج میں ہم معاشی بہتری کے بارے میں آگاہی نہیں دیتے۔ انبیاء کرام اور صحابہ کرام کی زندگیوں سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ معاشی حالت بہتر بنانا بھی ضروری ہے۔
اسلام کے نفاذ کے لیے اُس دور میں تلوار استعمال کی جاتی تھی۔ اس وقت کا اسلحہ تلوار اور گھوڑے تھے۔ اور انہیں کو تیار کیا جاتا تھا تاکہ دشمن کے خلاف استعمال کی جا سکے۔ لیکن آج کے دور میں اسلحہ کا استعمال اور جنگوں کی نوعیت بدل چکی ہے۔ آج معاشی جنگ چل رہی ہے۔ ٹیکنالوجی کی جنگیں ہیں، اس لیے ہمیں اپنے آپ کو ٹیکنالوجی کی میدان میں بھی مضبوط بنانا ہے۔ آج جنگیں افراد کے آمنے سامنے کی بجائے جہازوں اور ڈرونز کے ذریعے لڑی جاتی ہیں۔ اس لیے ہمیں جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی اپنا مقام پیدا کرنا ہوگا۔
دین کے ساتھ ساتھ ہمیں سائنسی تعلیم کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ دین دار طبقے کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ سائنس کی تعلیم بھی حاصل کریں۔ چونکہ جہاد دین کا ایک اہم رکن ہے اور آج کے جہاد میں تلوار کی بجائے جدید ٹیکنالوجی زیر استعمال ہے۔ اس لیے ہمیں انفرادی طور پر بھی اس کی تیاری کرنا ہوگی۔ نہ کہ یہ صرف ریاست کی ذمہ داری سمجھ کر خود کو بری الذمہ سمجھ لیا جائے۔
تبصرہ لکھیے