ہوم << عورت اور کاروکاری - فرقان بزدار

عورت اور کاروکاری - فرقان بزدار

"کاروکاری" ایک ایسی روایت ہے جس میں کسی عورت کو غیرت یا عزت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے اور قاتل سزا سے صاف بچ جاتا ہے اور کبھی کبھار عورت کو قتل کرنے کے بجائے فروخت کردیا جاتا ہے۔ اس روایت کے مطابق جب کسی عورت پر یہ الزام لگایا جائے کہ اس نے اپنے خاندان یا برادری کی عزت کو نقصان پہنچایا ہے تو اسے "کاری" قرار دے دیا جاتا ہے۔ سندھ میں ایسے قتل کو کاروکاری کہتے ہیں۔ پنجاب میں یہ کالا کالی کہلاتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں طورطورہ جبکہ بلوچستان میں سیاہ کاری کہا جاتا ہے۔

اس قتل کو اکثر برادری کے جرگے یا روایتی سسٹم کے تحت جائز قرار دیا جاتا ہے اور قتل کرنے والوں کو اخلاقی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ یہ قتل عموماً اس صورت میں کیا جاتا ہے جب کسی عورت پر الزام عائد کیا جائے کہ اس نے کسی مرد کے ساتھ غیر قانونی تعلقات قائم کیے ہیں یا اس نے ایسی کوئی حرکت کی ہے جو معاشرتی طور پر ناقابل قبول سمجھی جاتی ہے اور اس عورت کا قاتل شوہر ، باپ ، بھائی یا کوئی قریبی رشتہ دار ہوتا ہے. اس کے علاوہ بعض اوقات عورت پر کارو کاری کا جھوٹا الزام لگا کر کسی مرد کو قتل کر کے اور اس عورت کی لاش مرد کے ساتھ پھینک دی جاتی ہے یا شوہر دوسری شادی کرنے کےلیے اپنی پہلی بیوی کو کاروکاری کا جھوٹا الزام لگا کر قتل کر دیتا ہے یا پھر کسی فرد یا خاندان سے جائیداد یا مال و دولت حاصل کرنے کےلیے قتل کیا جاتا ہے تاکہ ان کے خاندان سے کچھ حاصل کیا جا سکے اور یہ رسم آج کے زمانے میں زیادہ ہے۔ اس الزام کو سچ ثابت کرنے کے لیے جھوٹے الزامات اور گواہیاں بھی دی جاتی ہیں اور ان گواہیوں کی بنیاد پر عورت کی زندگی کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے عورت کی زندگی کو ایک معاشی اور سماجی سودے کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔

کاروکاری کی یہ روایت پاکستان کے مختلف علاقوں میں موجود ہے اور ان علاقوں میں اس روایت کو ثقافتی اور مذہبی بنیادوں پر جائز سمجھا جاتا ہے۔ بلوچستان، سندھ ، خیبر پختونخواہ اور جنوبی پنجاب کے مخصوص دیہی علاقوں میں یہ رسم آج بھی عام ہے ۔ ان علاقوں میں اکثر ایسے خاندانوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جنہیں اس رسم کو چلانے میں فخر محسوس ہوتا ہے اور اس قتل کے ذریعے انہیں برادری کی عزت کا خیال رکھا جاتا ہے۔

ڈاکٹر شاہد مسعود اپنی کتاب ویوز آن نیوز میں اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ ایک ایسا قبرستان بھی موجود ہے جہاں زیادہ تر وہ عورتیں دفن ہیں جنہیں کاروکاری کے الزامات کے تحت قتل کیا گیا تھا۔ اس قبرستان میں بگٹی اور جتوئی خاندان کی عورتوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔کاروکاری کی جڑیں مختلف عوامل میں چھپی ہوئی ہیں۔ ان میں سب سے بڑا عنصر غیرت اور عزت کی تشریح ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں عورتوں کو خاندان یا برادری کی عزت کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے اور ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہر صورت میں خاندان یا برادری کی عزت کی حفاظت کریں گی۔

ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ سماجی روایات اور جرگہ سسٹم کا کردار بھی بہت زیادہ ہے۔ جرگے یا پنچایتیں بعض اوقات خواتین کے قتل کو برادری کے مفاد میں جائز قرار دیتا ہے اور اس قتل کو ایک نوعیت کا "سمجھوتہ" قرار دے کر اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں خاندانوں کو قتل کی اس روایت کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے تاکہ برادری کی عزت بچائی جا سکے۔ پاکستان میں وہ خواتین زیادہ تر کاروکاری کا شکار بنتی ہیں جو کمزور طبقے سے تعلق رکھتی ہیں یا جن کے پاس اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے وسائل نہیں ہوتے۔ یہ خواتین اپنے آپ کو معاشرتی طور پر غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں اور ان کے پاس اپنے تحفظ کا کوئی مؤثر ذریعہ نہیں ہوتا۔ ان کی زندگی خوف اور تشویش میں گزرتی ہے اور انہیں ہر وقت اس بات کا خوف رہتا ہے کہ کہیں انہیں غیرت کے نام پر قتل نہ کر دیا جائے۔ یہ خواتین اپنی آواز نہیں اٹھا پاتیں اور ان کی زندگی معاشرتی جبر کے تحت گزارنی پڑتی ہے۔اسی کی مثال قندیل بلوچ کا قتل بھی تھا جس کا چرچا دنیا بھر میں ہوا تھا۔