ہوم << والدین کے ساتھ حسنِ سلوک - محمد عارف بنگش

والدین کے ساتھ حسنِ سلوک - محمد عارف بنگش

انسان کی نظر میں دنیا کی سب سے قیمتی متاع اس کا وجود ہے ۔اسی وجودکی پرورش و بقا کی خاطر وہ ہر طرح کی محنت و مشقت برداشت کرلیتا ہے ۔ جب اس وجود کو بیماری لاحق ہوتی ہے تو علاج میں تمام جمع پونجی خرچ کر ڈالتا ہے ۔اور ایک ہی آرزو ہوتی ہے کہ کسی طرح سےوہ دوباوہ صحت یاب ہوسکے ۔

اب سوچیے کہ جو ہستی اس وجود کی وجہ بنی ،جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس وجود کا ذریعہ بنایا ،جن کے پیٹ میں اس کی تخلیق ہوئی اور پھر پیدائش کے بعد جب یہ انسان اپنے وجود سے غافل تھا ،خیر و شر کے تمام پیمانوں سے نابلد اور نفع و نقصان سے لاپرواہ تھا،تب وہ ہستیاں اس چھوٹے اور نرم و نازک وجود کی پرورش میں دن رات سرگرم رہتیں۔انہیں اپنےسکون سے زیادہ اس نومولود کے آرام و راحت کی فکر رہتی،ان کی رضا کی چادر ہر آن نوزائیدہ کی خوشی کے لیے بچھی رہتی ۔اپنی مصیبت انہیں کم اور بچے کی پریشانی انہیں زیادہ ستاتی ۔اور یہ فکرمندی کا تعلق صرف ان کی حیات تک محدود نہیں رہتا بلکہ انہیں تو یہ فکر بھی لاحق ہوتی ہے کہ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بچے کا کیا بنے گا۔ ایسی کرم فرما ہستیاں جن کی شکر گزاری کا اللہ تعالی ٰ باقاعدہ حکم دے رہا ہے کہ جس طرح میری شکر گزاری تم پر لازم ہے اسی طرح ان کا شکر بجا لانا بھی تم پر ضروری ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے: ان اشکرلی و لوالدیک ( سورۃ لقمان:31) ترجمہ:اور یہ کہ میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرتے رہا کرو۔۔

یہ عظیم ہستیاں آپ کے والدین ہیں ۔جن کی عزت و عظمت کی بلندیوں کا اندازہ اس سے لگالیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے کہیں ایک بار اپنی توحید و ربوبیت کے ساتھ ان کا ذکربھی کیا ہے ۔قرآن جب بھی والدین کو زیر بحث لاتا ہے ،ایک عظیم ہستی کے طور پر اسے پیش کرتاہے ۔چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ و قل رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا ۔( سورۃ الاسراء : 27) اس کا مفہوم ہے کہ اپنے والدین کے سامنے اطاعت و فرمانبرداری سے پیش آو ،اور ان سے انتہائی نرمی برتو۔ ان کے بارے میں اللہ کا حکم ہے کہ اگر تم سے کوئی غیر معقول بل کہ غیر شرعی مطالبہ بھی کرے تو اگرچہ اس معاملے میں ان کی اطاعت نہ کی جائے مگر ادب و سلیقہ اور نرم گوئی کا دامن تب بھی ہاتھ سے چھوٹ نہ پائے۔

والدہ کا خاص طور پر قرآن میں ذکر آیا ہے ۔ اور وھنا علی وھن کہہ کر ان تمام مشقتوں کی طرف اشارہ کیا گیاہے جو ماں کی پیٹ میں نمو پانے والے بچے کی وجہ سے انہیں جھیلنی پڑتی ہیں۔نبی اکرم ﷺ اپنی رضاعی ماں کا اس قدر احترام کرتے کہ جب ان سے ملتے تو ان کے لیے اپنی چادر بچھادیتے ۔اسی طرح والد کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا : رضا الرب فی رضا الوالد،وسخط الرب فی سخط الوالد (سنن ترمذی:1900)۔ اللہ کی رضا والد کی رضا و خوشی میں ہے اور اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔�

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی ٰ نے اپنی رضا کو والد کی رضا کی ساتھ جوڑ دیا ہے ۔ یہ درحقیت اللہ تعالیٰ اپنی رضا کو انتہائی آسان بنا رہا ہے۔کیوں کہ والد کو راضی کرنے میں مشکل کیا ہے؟ والد اپنے بچے سے کوئی بڑا دنیاوی مطالبہ کرتا ہی نہیں کہ جسے پورا کرنے کے لیے اسے کسی مشکل کا سامنا ہو۔ والد اپنے بچے میں صرف وصرف اپنے لیے جذبہِ اطاعت دیکھنا پسند کرتا ہے ۔بس اگر یہ کام ہوجائے تو اللہ کی رضا کے تمام دریچے خود بہ خود کھلنا شروع ہوجاتے ہیں۔

ایک اور اہم پہلو جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہماری توجہ دلائی ہے وہ یہ کہ جب والدین بوڑھے ہوجائیں تو پھر ان کے ساتھ پہلے سے زیادہ نرمی اور حسنِ سلوک سے پیش آنا چاہیے ۔اس کی وجہ ان کے مزاج میں بڑھاپے کے سبب رونما ہونے والی کم زوریاں اور طبیعت میں چڑچڑا پن ہے ۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ جب انسان توانا ، صحت مند اور معاشی خود کفیل ہوتا ہے تب اس کی نظریں اردگرد لوگوں کی رویوں پر کم ہوتی ہیں ۔ جوں جوں وہ کم زور اور معاشی طور پر دوسروں پر منحصر ہونے لگتا ہے اس کے مزاج میں حساسیت سی پیدا ہونے لگتی ہے اور چھوٹی موٹی باتوں پر بھی روٹھنے لگ جاتا ہے ۔ایسے موقع پر ان کے ساتھ بہت زیادہ نرمی اور خوش اسلوبی سے پیش آنے کی ضرورت پہلے سے کئی گناہ بڑھ جاتی ہے ۔

بہ ہر حال ہمیں اپنے والدین کے ساتھ پوری اطاعت و فرمان برداری کے رویے اپنانے چاہیے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض والدین انتہائی بگڑے اور اڑے مزاج کے ہوتے ہیں مگر بہ ہر صورت ہمیں ان کو برداشت کرنا ہوگا کیوں کہ وہ ہمارے والدین ہیں۔ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا سلسلہ ان کے دارفانی سے کوچ کے بعد بھی جاری رہتاہے ۔ جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے کہ ائے اللہ جس طرح انہوں نے بچپن میں ہماری پرورش کی ،اسی طرح آپ بھی ان کے ساتھ خصوصی رحم و کرم و شفقت والا معاملہ فرمائیے۔