صدیوں کے سیاسی اُفق پر کچھ نام ایسے اُبھرتے ہیں جو تاریخ کے دھارے کو موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔صدرولادیمیر پوتن انہی میں سے ایک ہیں۔ وہ نہ صرف روس کو ایک عالمی طاقت کے طور پر ازسرنو استوار کر چکے ہیں بلکہ مغرب کے اس تصور کو بھی چیلنج کر دیا ہے کہ دنیا پر صرف ایک ہی قطب کا راج ہوگا۔پوتن کا اقتدار 25 برس پر محیط ہے، اور یہ سفر کسی حادثے یا محض اتفاق کا نتیجہ نہیں، بلکہ حکمت، صبر اور قوتِ ارادی کا ثمر ہے۔ سن 1999 میں جب بورس یلسن نے انہیں وزیراعظم نامزد کیا تو شاید ہی کسی نے سوچا ہو کہ یہ خاموش اور گہری نظر رکھنے والا شخص روس کے سیاسی و عسکری منظرنامے کو ازسرنو ترتیب دے گا۔ یلسن کے مستعفی ہونے کے بعد جب 2000 میں پوتن نے بطور صدر عنانِ اقتدار سنبھالی، تو روس کئی داخلی و خارجی بحرانوں میں گھرا ہوا تھا۔ چیچنیا میں بدامنی، معیشت کی زبوں حالی اور مغرب کی جانب سے روس کو نظرانداز کیے جانے کی پالیسی جیسے چیلنجز درپیش تھے۔ لیکن آج، ربع صدی گزرنے کے بعد، وہی روس ایک مضبوط، مستحکم اور عالمی فیصلوں پر اثر انداز ہونے والی قوت بن چکا ہے۔پوتن نے اقتدار میں آتے ہی روس کی داخلی سیاست کو مستحکم کرنے پر توجہ دی۔ انہوں نے اولیگارک اشرافیہ کے بے لگام اثرورسوخ کو کم کیا، توانائی کے وسائل پر ریاستی کنٹرول مضبوط کیا اور فوج کو جدید خطوط پر استوار کیا۔
2014 میں جب انہوں نے کریمیا کو روس میں ضم کیا تو یہ مغرب کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ امریکہ اور یورپی یونین نے پابندیاں لگائیں، مگر پوتن ڈٹے رہے۔ مغربی مبصرین نے دعویٰ کیا کہ روسی معیشت تباہ ہو جائے گی، لیکن حقیقت اس کے برعکس رہی۔ روس نے چین اور دیگر غیر مغربی ممالک کے ساتھ اقتصادی اتحاد مضبوط کر کے اپنی معیشت کو سہارا دیا۔ 2022 میں یوکرین کے خلاف فوجی کارروائی کے بعد مغرب نے روس کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش کی، مگر پوتن کی سفارتی حکمت عملی نے انہیں ایسا کرنے نہ دیا۔ برکس (BRICS) اتحاد کو مزید متحرک کرنا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں روس کے اثرورسوخ میں اضافہ، اور یورپی توانائی مارکیٹ میں روسی گیس و تیل کی ضرورت نے پوتن کو مغربی دباو کے آگے جھکنے نہیں دیا۔
مارچ 2024 میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں پوتن نے 87 فیصد ووٹ حاصل کیے، جو کہ سوویت یونین کے بعد روس میں صدارتی انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ کا تناسب ہے۔ ان کے مدِمقابل امیدوار چار فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کر سکے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ روسی عوام کے نزدیک پوتن نہ صرف ایک مقبول رہنما ہیں بلکہ روس کے استحکام اور ترقی کے ضامن بھی ہیں۔
پاکستان اور روس کے تعلقات ہمیشہ نشیب و فراز کا شکار رہے۔ سرد جنگ کے دوران، پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا جبکہ روس کا جھکاؤ بھارت کی طرف تھا۔ لیکن تاریخ ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی۔ ذوالفقار علی بھٹو پہلے پاکستانی وزیر اعظم تھے جنہوں نے 1972 میں ماسکو کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان نئے تعلقات کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد 1974 میں ان کے دوسرے دورہ روس کے نتیجے میں کراچی اسٹیل مل کا قیام عمل میں آیا، جو آج بھی روس کی پاکستان میں صنعتی معاونت کی ایک یادگار مثال ہے۔تاہم، 1980کی دہائی میں افغان جنگ کے دوران یہ تعلقات تناؤ کا شکار ہو گئے۔ پاکستان نے امریکی اتحاد میں شامل ہو کر روس کے خلاف مجاہدین کی حمایت کی، جس کا نتیجہ روس پاکستان تعلقات میں طویل تعطل کی صورت میں نکلا۔ لیکن تاریخ نے ایک بار پھر کروٹ لی۔
سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد، 2011 میں صدر آصف علی زرداری کے دورہ روس سے دونوں ممالک کے درمیان ایک نیا سفارتی باب کھلا۔ 2015 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ماسکو کا دورہ کیا، جس کے بعد روس نے پاکستان کو M135 ہیلی کاپٹر فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ 2016 میں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان مشترکہ مشقیں ہوئیں اور 1.7 ارب ڈالر کی لاگت سے کراچی لاہور گیس پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ طے پایا۔پوتن کے دور میں روس نے پاکستان کو نظرانداز کرنے کی پالیسی کو ترک کیا۔ 2022 میں جب عمران خان نے ماسکو کا دورہ کیا تو وہ لمحہ بین الاقوامی میڈیا میں سرخیوں کی زینت بنا۔ یہ دورہ اس وقت ہوا جب روس نے یوکرین پر فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا، اور پاکستان کا ایسے وقت میں روس کے قریب جانا ایک جرات مندانہ سفارتی قدم تھا۔
پوتن نے روس کو عالمی سطح پر وہ مقام دلوایا جس کا وہ حق دار تھا۔ ایک وقت تھا جب مغرب، خاص طور پر امریکہ، یہ سمجھتا تھا کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد روس کبھی دوبارہ عالمی طاقت کے طور پر نہیں ابھرے گا، مگر پوتن نے یہ تاثر غلط ثابت کر دیا۔انہوں نے دنیا کو یہ باور کروا دیا کہ روس محض ایک علاقائی طاقت نہیں، بلکہ ایک عالمی کھلاڑی ہے۔ ان کی قیادت میں دنیا اب ایک ''کثیر قطبی'' نظام کی طرف بڑھ رہی ہے، جہاں صرف مغرب کا حکم نہیں چلتا بلکہ روس، چین، بھارت اور دیگر ممالک بھی عالمی پالیسیوں پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔اگر مستقبل کی سیاست کو دیکھیں تو یہ واضح ہے کہ پوتن کی کامیابی کا راز صرف ان کے سخت گیر فیصلوں میں نہیں، بلکہ ان کی اس حکمتِ عملی میں ہے جس کے ذریعے انہوں نے مغرب کی یکتا عالمی تسلط کی پالیسی کو بے اثر کر دیا۔
سوویت سیاسی و انقلابی رہنما جوزف اسٹالن کے بعد پوتن سب سے زیادہ طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والی شخصیت ہیں۔ اسٹالن نے سن 1924 تا 1954ء تک سوویت یونین کی قیادت کی ان کی موت ہی انہیں اقتدار سے الگ کر سکی۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 74 برس تھی۔ سات اکتوبر سن 1952 میں پیدا ہونے والے ولادیمیر پوتن 73برس کے ہو چکے ہیں۔ روس پر ان کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ مستقبل قریب تک ان کو سیاسی سطح پر چیلنج کرنے والا دور دور تک نظر نہیں آتا۔
تاریخ ہمیشہ اُنہی رہنماؤں کو یاد رکھتی ہے جو اپنے وقت سے آگے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جو آنے والے دور کے چیلنجز کو پہلے ہی بھانپ لیتے ہیں، اور جو اپنے ملک کے مفادات کو ذاتی مفادات پر مقدم رکھتے ہیں۔ پوتن کا شمار ایسے ہی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ وہ سیاست کے شطرنج کے کھلاڑی ہیں، جو صرف چالیں نہیں چلتے بلکہ آنے والی کئی چالوں کو پہلے سے بھانپ لیتے ہیں۔عالمی سیاست میں پوتن کی حیثیت صرف ایک صدر کی نہیں، بلکہ ایک ایسے رہنما کی ہے جو تاریخ کے دھارے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کی قیادت میں روس نہ صرف ایک مستحکم ملک کے طور پر کھڑا ہے بلکہ ایک نئی عالمی ترتیب کی بنیاد بھی رکھ چکا ہے۔
تبصرہ لکھیے