اگر کوئی یہ سوال پوچھے کہ گھر کیا ہوتا ہے؟… تو اس کا ایک جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گھر ایک عمارت کو کہتے ہیں … لیکن عمارت کو تو مکان بھی کہتے ہیں … تو پھر مکان اور گھر میں کیا فرق ہوا؟
مکان تو یقیناً ایک عمارت ہی کو کہتے ہیں البتہ وہ عمارت ”گھر“ ان افراد کی وجہ سے بنتی ہے جو اس عمارت میں رہتے ہیں۔ گھر صرف اینٹ گارے سے بنی عمارت کا نام نہیں ہوتا، بلکہ یہ تو ایک احساس، ایک وابستگی اور ایک انسیت کا نام ہوتا ہے۔ ہم کسی بھی کام کیلئے کہیں بھی جائیں، روزگار کیلئے، تعلیم کیلئے، کسی سے ملنے کیلئے، کچھ خریدنے کیلئے، تو واپسی میں ہمیں گھر ہی آنا ہوتا ہے۔ گھر خواہ کہیں بھی ہو، ہم واپسی میں وہیں آنا چاہتے ہیں۔ اب اگر کسی کے پاس گھر ہی نہ ہو تو اس کی زندگی کیسی ہوگی؟… یعنی تصور کریں کہ دن بھر کے کاموں سے فارغ ہو کر اگر شام کو آپ کو کہیں نہ جانا ہو، تو زندگی میں کیا مزا رہ جائے گا؟
گھر انسان کیلئے بہت ضروری ہوتا ہے۔ مسافر یا سیاح جس وقت سفر میں ہوتا ہے، اس وقت اس کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ جب اس کی سیاحت مکمل ہوتی ہے تب ہی اسے اپنے گھر واپس آنا ہوتا ہے۔ البتہ جب وہ سفر کر رہا ہوتا ہے تو جس ہوٹل میں ٹھہرتا ہے یا جہاں اپنا خیمہ لگاتا ہے، وہی ہوٹل اور وہی خیمہ اس کا گھر ہوتا ہے۔ وہ دن بھر آوارہ گردی کے بعد واپس اسی جگہ آنا چاہتا ہے، خواہ نیند ہی پوری کرنے کیلئے۔ کہیں اور سونے میں اسے عجیب بے چینی ہوگی۔ جس جگہ اس کا قیام ہے وہیں اسے سکون کی نیند آئے گی۔
مجھے بھی گاہے گاہے گھر سے بے گھر ہونے کا شوق ہے۔ اکثر گھومتا پھرتا رہتا ہوں اور اس بے گھری کی کیفیت سے گزرتا رہتا ہوں۔ ایک بار اسی طرح کی آوارہ گردیوں کے دوران گھر کا تصور ایک بالکل عجیب انداز میں میرے سامنے آیا ہے۔
میں 2015ء میں ترکی کے شہر استنبول گیا۔ وہاں استنبول یونیورسٹی کے شعبۂ اردو نے عالمی اردو کانفرنس منعقد کی تھی۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے دنیا بھر سے آئے ہوئے کانفرنس کے شرکاء کیلئے کیمپس کے قریب ایک ہوٹل بک کیا ہوا تھا۔ یہ ہوٹل کانفرنس ہال سے قریب ہی تھا، اس لئے ہم روزانہ کانفرنس کے مختلف سیشنز میں شرکت کیلئے پیدل ہی یونیورسٹی آ جاتے تھے۔ کانفرنس تو تین دن میں ختم ہوگئی، البتہ شرکاء کو مزید دو دن اس ہوٹل میں رہنے کی اجازت تھی۔ چنانچہ ہم پانچ دن اس ہوٹل میں رہے، اس کے بعد ہمارے پاس جتنے دن کا ویزہ تھا اتنے دن مزید ترکی میں رہ تو سکتے تھے، لیکن اپنے خرچے پہ … اب وہ ہوٹل چونکہ مہنگا تھا اس لئے ہمیں چھوڑنا پڑا۔ مجھے تو خیر جانا بھی استنبول سے باہر تھا۔ میں نے انقرہ، طربزون اور بحیرۂ اسود کے ساحلوں کی سیر کا پروگرام بنا رکھا تھا، اس لئے میں پانچویں دن انقرہ روانہ ہو گیا۔
استنبول کو میں اپنا ہی شہر سمجھتا ہوں، بالکل ایسے ہی جیسے کراچی ہے، جیسے اسلام آباد ہے، یا جیسے میری جائے پیدائش خیرپور سندھ ہے، بالکل اسی طرح استنبول بھی میرا شہر ہے۔ تو میں اپنے استنبول سے نکلا، پہلے ترکی کے دارالحکومت انقرہ گیا اور وہاں سے ترکی کے شمالی علاقوں میں بحیرۂ اسود کے ساحلوں کی طرف چلا گیا۔ بحیرۂ اسود کے کنارے ترکی کے تاریخی شہر طربزون کے قریب پہاڑوں کی بلندی پر ایک مشہور جھیل ”اُذن گول“ ہے۔ اس جھیل کی دلکش و دلفریب تصاویر میں ایک عرصے سے دیکھتا آ رہا تھا۔ اب جب مجھے یہ موقع مل رہا تھا تو میں اپنی آنکھوں سے اس خوبصورت جھیل کو دیکھنا چاہتا تھا۔ اُذن گول ہماری جھیل سیف الملوک کی طرح پہاڑی بلندیوں پر واقع ہے، لیکن اس میں اور جھیل سیف الملوک میں فرق یہ ہے کہ سیف الملوک اس بلندی پر ہے جہاں درخت نہیں اُگتے، جبکہ اُذن گول کی بلندی ذرا کم ہے، اس لئے وہ درختوں میں گھری ہوئی ہے۔ چنانچہ اس کا بھی اپنا ایک منفرد حسن ہے۔ وہ جھیل دیکھ کر مجھے دوبارہ واپس استنبول آنا تھا، کیونکہ پاکستان واپسی کی فلائٹ استنبول سے تھی۔
جب میں طربزون سے استنبول واپس پہنچا تو مجھے یوں لگا جیسے میں پردیس سے وطن واپس آیا ہوں۔ اب چونکہ مجھ پر یہ احساس غالب تھا کہ میں اپنے ملک، اپنے شہر میں واپس پہنچ گیا ہوں، اس لئے اب مجھے اپنے گھر جانا چاہئے … اب یہ تو ایک عجیب سی صورتحال ہو گئی۔ کیونکہ میرا گھر تو وہاں نہیں تھا، وہ تو کراچی میں تھا … تو اب یہاں استنبول میں مَیں اپنا گھر کہاں ڈھونڈوں؟
میں شعوری طور پر تو یہ بات اچھی طرح سمجھ رہا تھا، لیکن لاشعوری طور پر یہی سوچ رہا تھا کہ اب مجھے گھر جانا ہے۔ میں جب استنبول کے بس ٹرمینل پر اپنی بس سے اترا تو کچھ دیر خالی ذہن کے ساتھ وہیں کھڑا رہا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کہاں جاؤں۔ پھر کچھ سوچ کر میں نے ایک ٹیکسی پکڑی اور سیدھا اسی علاقے میں چلا آیا جہاں چند دن پہلے کانفرنس کے دوران ہوٹل میں ٹھہرا تھا۔ کیونکہ میرے دل میں جو گھر جانے کی ہُوک اٹھ رہی تھی وہ مجھے کھینچ کر اسی جگہ لے جا رہی تھا جہاں چند دن پہلے کچھ ایام گزارے تھے۔ ٹیکسی سے اتر کر میں اسی ہوٹل میں داخل ہو گیا۔ اندر لابی میں اطالوی سیاحوں کا ایک ہجوم موجود تھا۔ میں نے جب ریسیپشن پر کہا کہ مجھے کمرہ چاہئے تو ہوٹل والوں نے جو ریٹ بتائے وہ میری استطاعت سے باہر تھے۔ ان دنوں جس طرح کا کمرہ پاکستان میں تین ہزار روپے کا مل جاتا تھا، ویسا کمرہ یہاں بارہ ہزار روپے کا تھا۔ چنانچہ میں مایوس ہو کر وہاں سے ایسے نکلا جیسے کسی نے مجھے گھر سے نکال دیا ہو۔ اب میرا تو کسی اور طرف جانے کا دل ہی نہ چاہے، کیونکہ میرے لاشعور میں تو یہی بیٹھ گیا تھا کہ یہ ہوٹل ہی یہاں میرا گھر ہے۔
میں کچھ دیر تو اسی ہوٹل کے اطراف والی گلیوں میں بے مقصد گھومتا رہا، پھر برابر والی گلی میں ایک ہوٹل مجھے پسند آ گیا۔ اس کا کرایہ بھی مناسب تھا۔ پاکستانی کرنسی کے مطابق پانچ ہزار روپے۔ سب سے اچھی بات تو یہ تھی کہ یہ اس پچھلے ہوٹل سے قریب تھا۔ چنانچہ میں نے وہاں ایک سنگل بیڈ کمرہ لے لیا۔ یہ اس پچھلے والے ہوٹل سے اچھا تو نہیں تھا، بس اس کے قریب تھا۔
میں اگلے جتنے دن بھی میں استنبول میں رہا، اسی ہوٹل میں رہا۔ آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ صرف پانچ دن اُس پچھلے ہوٹل میں گزارنے سے وہ لاشعور میں میرے گھر کی حیثیت اختیار کر چکا تھا، حالانکہ وہ میرا گھر نہیں تھا۔ چنانچہ سمجھ یہ آیا کہ انسان کو ایک گھر چاہئے ہوتا ہے اور وہ گھر اس عمارت کا، اس کے درودیوار کا نام نہیں ہوتا، بلکہ وہ شعور و لاشعور پر پڑنے والے اثرات سے تشکیل پاتا ہے۔ یعنی ایسی کوئی بھی جگہ جو آپ کی خصوصی توجہ کھینچ لے، وہ ہو سکتا ہے کہ آپ کو اپنے گھر جیسی لگنے لگے۔ یہ بات اپنی جگہ کہ کچھ گھر ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جہاں آپ رہتے بھی ہیں لیکن وہ آپ کو پسند نہیں ہوتے اور آپ پہلی فرصت میں ان کو چھوڑنا چاہتے ہیں۔
جس طرح کھانا پینا، لباس اور مال و اسباب نعمت ہوتے ہیں، اسی طرح گھر بھی اللہ کی نعمت ہوتا ہے۔ جس جگہ بھی ہمیں انسیت محسوس ہو، اس جگہ کی ہمیں قدر کرنی چاہیے کہ وہی ہمارا گھر ہے۔ جس طرح ہمارا ملک ہمارا گھر ہے، ہمارا شہر ہمارا گھر ہے، مکہ مکرمہ ہمارا گھر ہے، مدینہ منورہ ہمارا گھر ہے اور استنبول ہمارا گھر ہے۔ میں تو ان سب گھروں کی قدر کرتا ہوں، ان مقامات سے محبت کرتا ہوں، ان کی طرف والہانہ لپکتا ہوں اور ان سب کو دل و جان سے عزیز رکھتا ہوں۔
تبصرہ لکھیے