دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں مقامی حکومتیں جمہوریت کی بنیاد سمجھی جاتی ہیں۔ یورپ، امریکہ، جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں مقامی حکومتیں شہری مسائل کے حل، وسائل کی تقسیم اور ترقیاتی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے خودمختار ہوتی ہیں۔ پاکستان، خاص طور پر پنجاب میں، مقامی حکومتوں کا نیا نظام 2025 ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے—بشرطیکہ یہ بین الاقوامی معیارات پر پورا اُترے۔
سویڈن اور جرمنی جیسے ممالک میں مقامی حکومتوں کو براہ راست ٹیکس جمع کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ جرمنی میں "میونسپل فنانسنگ سسٹم" کے تحت مقامی حکومتیں پراپرٹی، بزنس اور انکم ٹیکس کے ذریعے اپنے اخراجات خود پورے کرتی ہیں۔ پنجاب میں نیا نظام کچھ حد تک اس سمت میں بڑھتا ہوا نظر آتا ہے، جہاں بلدیاتی اداروں کو مخصوص فیسیں اور محصولات وصول کرنے کی اجازت دی گئی ہے، مگر انہیں مکمل مالیاتی خودمختاری حاصل نہیں ہے۔
برطانیہ میں لوکل کونسلز براہ راست عوامی مسائل حل کرنے کے لیے خودمختار ہیں اور انہیں حکومتی مداخلت سے آزاد رکھا جاتا ہے۔ پنجاب میں نیا نظام ضلعی حکومت کے خاتمے اور تحصیل و یونین کونسلز پر مشتمل ہوگا، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا ان اداروں کو حقیقی خودمختاری ملے گی؟ اگر ڈپٹی کمشنرز جیسے بیوروکریٹک افسران ان پر اثرانداز ہوتے رہے تو یہ نظام بین الاقوامی معیارات پر پورا نہیں اتر سکے گا۔
امریکہ میں مقامی حکومتوں کے نمائندے عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں، جو ان کے احتساب کو ممکن بناتے ہیں۔ پنجاب کے نئے نظام میں تحصیل چیئرمینز اور یونین کونسلز کا انتخاب براہ راست ہوگا، جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم، میئرز اور میونسپل چیئرمینز کے انتخابی طریقہ کار میں ابہام موجود ہے، جسے مزید شفاف بنایا جانا چاہیے۔
سنگاپور اور ساؤتھ کوریا میں مقامی حکومتیں ڈیجیٹل سسٹمز کے ذریعے عوامی خدمات مہیا کرتی ہیں۔ شہری آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے شکایات درج کر سکتے ہیں اور ان کے حل کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ پنجاب میں اگر نیا نظام بین الاقوامی معیارات کے مطابق بنایا جانا ہے، تو اسے مکمل ڈیجیٹلائزیشن کی طرف جانا ہوگا۔ عوام کو موبائل ایپس اور ویب پورٹلز کے ذریعے شکایات درج کرانے اور ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کی سہولت دینی ہوگی۔
پنجاب میں مقامی حکومتوں کے نئے نظام 2025 میں مواقع اور چیلنجز درج ذیل ہیں:۔
✅ نچلی سطح پر جمہوریت کا فروغ : مقامی نمائندے براہ راست عوام سے جڑے ہوں گے۔
✅ ترقیاتی کاموں میں بہتری : مقامی سطح پر منصوبہ بندی اور فیصلے زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔
✅ عوامی شراکت داری : اگر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو شہری براہ راست فیصلہ سازی میں شریک ہو سکتے ہیں۔
٭ چیلنجز
✅ بیوروکریسی کی مداخلت : اگر ضلعی انتظامیہ مقامی حکومتوں کے فیصلوں پر اثرانداز ہوئی تو نچلی سطح پر جمہوریت کمزور ہو جائے گی۔
✅ مالیاتی مسائل : مقامی حکومتوں کے پاس اپنے وسائل نہ ہونے کی صورت میں وہ ترقیاتی کاموں کے لیے صوبائی حکومت پر انحصار کریں گی۔
✅ سیاسی عدم استحکام : مقامی حکومتوں کے انتخابات اور ان کے اختیارات کو سیاسی مقاصد کے لیے محدود کیا جا سکتا ہے۔
پنجاب میں مقامی حکومتوں کا نیا نظام ایک اہم قدم ہے، مگر کیا یہ سویڈن، برطانیہ یا امریکہ کے مقامی حکومتی ماڈلز کی طرح مؤثر ہوگا؟ اس کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ کیا حکومت واقعی ان اداروں کو مکمل خودمختاری دینے کے لیے تیار ہے۔ اگر پنجاب میں مقامی حکومتوں کو مالیاتی، انتظامی، اور پالیسی سازی میں حقیقی اختیارات مل جاتے ہیں، تو یہ نظام پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگر، یہ محض ایک اور کاغذی منصوبہ بن کر رہ جائے گا۔
تبصرہ لکھیے