جنوبی افریقہ میں سچ اور مفاہمت کمیشن 1995 میں نیلسن منڈیلا کی قیادت میں قائم کیا گیا تھا اس کا مقصد نسلی امتیاز کے دوران ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا اعتراف اور متاثرین کو انصاف فراہم کرنا تھا۔ اس کمیشن نے ظالموں کو معافی دینے کے بدلے میں سچ بولنے پر مجبور کیا، تاکہ قوم ماضی کے سیاہ باب سے نکل کر ایک نئی صبح کی طرف بڑھ سکے۔
یہ کمیشن تین بنیادی نکات پر مبنی تھا
سچائی کا اعتراف ماضی کے جرائم کو تسلیم کیا جائے۔
معافی اور مفاہمت -سچ بولنے والوں کو معافی دی جائے تاکہ وہ اصلاح کر سکیں۔
قومی تعمیر نو ریاست اور ادارے مل کر ایسے اقدامات کریں جو آئندہ ایسے مظالم سے بچائیں۔
یہ ماڈل دنیا بھر میں ایک مثال بنا، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ پاکستان میں بھی کام کر سکتا ہے؟
کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ ہم بھی جنوبی افریقہ کی طرح سچ اور مفاہمت کمیشن بنائیں۔
مگر پھر خیال آتا ہے کہ ہم پاکستانی ہیں، ہمیں تو دودھ میں پانی ملانے سے بھی انکار کی عادت ہے، یہاں تو "ماننا" بذات خود ایک قومی جرم سمجھا جاتا ہے۔
اب ذرا سوچیے، اگر ہمارے حکمران سچ بولنے پر آجائیں، تو کیسا منظر ہوگا؟
"جناب، میں مانتا ہوں کہ میں نے قومی خزانے کی لوٹ مار میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔ وہ جو دبئی میں تین پلازے ہیں، وہ اتفاقیہ طور پر میرے نام نکل آئے۔"
یا پھر، "ہاں جی، وہ جو سرکاری زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹی بنی ہے، وہ واقعی میرے سسر کی زمین نہیں تھی، بس قبضہ کرنے کا شوق تھا۔"
ایسا سچ بولنا ہماری سیاست میں ویسا ہی ناممکن ہے جیسے کوئی چائے والا بغیر چینی کے چائے بیچنے لگے۔
ہمارے ہاں تو سچ بولنے کی روایت ہی عجیب ہے۔ بندہ اگر سچ کہہ دے تو یا تو اسے دیوانہ سمجھا جاتا ہے، یا پھر اس کے گھر والوں کو کہا جاتا ہے کہ اسے سنبھالو، کہیں زیادہ سچ نہ بول بیٹھے۔
اب اگر یہاں "سچ اور مصالحت کمیشن" بنے تو سب سے پہلا سوال یہ کہ ہمارے حکمران اپنے کارناموں کا اعتراف کیسے کریں گے؟
مانا کہ جنوبی افریقہ میں لوگوں نے دل کھول کر کہا کہ ہاں بھائی، ہم سے غلطی ہوئی۔ لیکن ہمارے ہاں تو غلطی ماننا گویا تخت و تاج چھوڑنے کے مترادف ہے۔
اب یہ تو طے ہے کہ اگر پاکستان میں جنوبی افریقی طرز کا کمیشن بنایا جائے تو سب سے پہلے ایک مضبوط، چودہ منزلہ ہال بنایا جائے گا، جہاں سب اعتراف کریں گے۔ لیکن کیا کریں، یہاں تو اعتراف کرنا بھی ایک فن ہے
"جی، ہم مانتے ہیں کہ ہم نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا، مگر یہ سب ملک کی بھلائی کے لیے کیا!"
"ہمیں علم نہیں تھا کہ جو بلڈنگ ہم نے گرانے کا حکم دیا، وہ چلتی ہوئی فیکٹری تھی۔"
"ہم نے جو سیاسی انجینئرنگ کی، وہ تو بس تھوڑی بہت نلکیوں کی صفائی تھی۔"
سچائی اور مفاہمت کا مطلب ہوتا ہے کہ انسان اپنی غلطیوں کا اعتراف کرے، معافی مانگے، اور آگے بڑھنے کا وعدہ کرے۔
ہمارے یہاں تو تین گروہ موجود ہیں
پہلا گروہ کہتا ہے: "میں نے کچھ نہیں کیا
دوسرا گروہ کہتا ہے: "میں نے کیا، لیکن وہ غلط نہیں تھا
تیسرا گروہ کہتا ہے: "ہاں میں نے غلط کیا، لیکن اس نے بھی تو کیا تھا
یہاں تو ہر معافی نامہ اس طرح شروع ہوتا ہے: "میں معافی مانگتا ہوں، لیکن
اس "لیکن" کے بعد جو آتا ہے، وہی اصل مسئلہ ہے
اور پھر ہمارے قومی اداروں کا کیا؟ وہ تو کہیں گے کہ ہم تو بس ملک کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ حکومتوں کو لانا، اتارنا، یہ تو بس حالات کا تقاضا تھا۔ جیسے کوئی کہے کہ میں نے گھر میں آگ لگائی تھی کیونکہ سردی بہت تھی، سوچا گرمی پیدا کروں۔ اب اس منطق کا کیا جواب دیں؟
اگر فوج، عدلیہ، بیوروکریسی اور سیاست دان سب اپنی غلطیوں کو مان لیں اور وعدہ کریں کہ دوبارہ ایسا نہیں ہوگا، تو یقین مانیے یہ ملک جنت بن جائے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں "دوبارہ ایسا نہیں ہوگا" ایک انتخابی وعدے کی طرح ہوتا ہے، جسے سنتے ہی عوام کی ہنسی نکل جاتی ہے۔
اب ذرا حقیقت دیکھیں۔ جنوبی افریقہ میں یہ ماڈل اس لیے کامیاب ہوا کہ وہاں لوگوں نے اپنے گناہ مانے اور دوبارہ نہ کرنے کا وعدہ کیا۔
ہمارے ہاں اگر کوئی مان بھی لے کہ ہاں، میں نے غلطی کی، تو اگلی سانس میں کہے گا کہ لیکن اس میں میرا کوئی قصور نہیں تھا، حالات نے مجبور کیا۔ تو بھائی، جب تک یہ "حالاتی مجبوری" کا بہانہ ختم نہ ہو، یہ سچ اور مصالحت سب دھواں ہی رہے گا۔
جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا نے سچ اور مفاہمت کا ایسا نظام بنایا کہ سب کو احساس ہوا کہ آگے بڑھنے کے لیے سچائی ضروری ہے۔
چلیں، مان لیتے ہیں کہ معافی دے دی جائے، مگر اس کے بعد کیا ہوگا؟ کیا وہی سیاست دان، افسر، اور طاقتور لوگ دوبارہ وہی حرکتیں نہیں کریں گے؟ اگر سچ اور مفاہمت واقعی کامیاب ہونا ہے تو پھر اس کے ساتھ سخت قانون بھی ہونا چاہیے، ایسا قانون جس میں معافی لینے والا کم از کم اتنا تو کرے کہ جو لوٹا ہے وہ واپس کردے، اور جو برباد کیا ہے اس کی مرمت کرے۔ لیکن اگر یہ امید لگائی جائے کہ وہ خود اعتراف بھی کریں گے اور توبہ بھی کریں گے، تو یہ ویسا ہی ہے جیسے کوئی بلی سے دودھ کی رکھوالی کی امید کرے۔
مشتاق احمد یوسفی صاحب اگر زندہ ہوتے تو شاید کہتے: "پاکستان میں اعتراف جرم وہ گیند ہے جسے ہر کھلاڑی دوسرے کھلاڑی کے پاس اچھالتا ہے، لیکن کوئی اسے پکڑنا نہیں چاہتا!
تو صاحبو، اگر واقعی جنوبی افریقی طرز پر سچ اور مفاہمت لانی ہے، تو پہلے اس ملک کے بڑے بڑے "معزز" افراد کو جھوٹ کی لت سے چھٹکارا دلوانا ہوگا۔ اور یہ کام اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ کسی پٹواری کو بغیر رشوت کے کام کرنے پر آمادہ کرنا۔
جب تک ہمارے ہاں سچ کو "غلط فہمی" اور "کمپرومائز" کومصلحت ، "لوٹ مار "کو مفاہمت سمجھا جاتا رہے گا، یہ سب ایک تماشہ ہی رہے گا۔ اور تماشہ تو ہمارے ہاں ویسے بھی کم نہیں
فی الحال تو یہی کہنا بنتا ہے
ہماری سیاسی تاریخ میں سچ کبھی اتنا سستا نہیں بکا، اور جھوٹ کبھی اتنا مہنگا نہیں ہوا
تبصرہ لکھیے