گزشتہ ڈیڑھ سال سے غزہ اسرائیلی جارحیت کا شکار ہے، اور یہ حملے محض عسکری کارروائیاں نہیں بلکہ ایک مکمل انسانی بحران کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی یہ لامتناہی جنگ اب تک 49,000 سے زائد قیمتی انسانی جانوں کو نگل چکی ہے، جبکہ زخمیوں کی تعداد 112,000 سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ اعداد و شمار محض اعداد نہیں، بلکہ ان کے پیچھے وہ مائیں، بچے، بزرگ، اور معصوم چہرے ہیں جنہوں نے جنگ کی بھیانک قیمت چکائی ہے۔
غزہ کی آبادی کو اجتماعی سزا دی جا رہی ہے۔ لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں، اور 1.9 ملین سے زائد افراد کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ صحت کے نظام کو تباہ کر دیا گیا ہے؛ 650 سے زائد طبی مراکز پر حملے، 1,000 سے زائد ڈاکٹروں اور نرسوں کی شہادت اور اسپتالوں میں ادویات کی قلت نے ہر لمحہ وہاں کے باسیوں کی تکلیف کو دو چند کر دیا ہے۔ تعلیم کا شعبہ بھی شدید متاثر ہوا ہے—تقریباً تمام تعلیمی ادارے یا تو تباہ ہو چکے ہیں یا بند، اور چھ لاکھ سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں۔
اس ساری تباہی میں جو پہلو سب سے زیادہ تشویش ناک ہے وہ ہے امریکہ کی اسرائیل کو جاری فوجی، سیاسی اور سفارتی پشت پناہی۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں ہوں یا جنگ بندی کی عالمی اپیلیں، امریکہ نے ہمیشہ اسرائیل کے حق میں کھڑے ہو کر ہر کوشش کو سبوتاژ کیا ہے۔ امریکی ہتھیار اور امداد نہ صرف اسرائیل کو مزید جارح بنانے کا ذریعہ بنے ہیں بلکہ یہ جنگی جرائم میں معاونت کے مترادف بھی ہیں۔
آج غزہ ایک کھلا قبرستان بن چکا ہے جہاں نہ صرف انسان بلکہ انسانیت دم توڑ رہی ہے۔ عالمی برادری کی خاموشی اور امریکہ کی حمایت نے اسرائیل کو ایسا حوصلہ دیا ہے جس نے کسی بھی بین الاقوامی قانون یا انسانی حق کو خاطر میں نہیں لایا۔ ایسے وقت میں صحافت، قلم، اور سچ کی آواز بننا ہم سب کا اخلاقی فرض ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم صرف خبریں نہ پڑھیں بلکہ صدائے احتجاج بلند کریں۔ انسانی حقوق کے عالمی علمبرداروں، اقوام متحدہ اور ترقی یافتہ دنیا کو اب صرف “تشویش” سے آگے بڑھ کر عملی قدم اٹھانا ہوگا، ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
تبصرہ لکھیے