ترکی کے معروف سیاستدان اور استنبول کے میئر، اکرم امام اوغلو کو بدعنوانی، دہشت گردی کی معاونت، اور سرکاری وسائل کے ناجائز استعمال کے الزامات میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اپوزیشن جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) نے اس گرفتاری کو "اگلے صدر کے خلاف بغاوت کی کوشش" قرار دیا ہے، کیونکہ امام اوغلو صدر رجب طیب ایردوان کے سب سے بڑے سیاسی حریف تصور کیے جاتے ہیں۔
اکرم امام اوغلو نے 2019 میں استنبول کے میئر کا انتخاب جیت کر حکمران جماعت اے کے پی کو بڑا دھچکا دیا تھا۔ انتخاب کالعدم قرار دیے جانے کے باوجود، وہ دوبارہ الیکشن میں 55 فیصد ووٹ لے کر کامیاب رہے۔ 2024 کے بلدیاتی انتخابات میں بھی انہوں نے اپنی جیت برقرار رکھی، جسےایردوان کی "بدترین شکست" کہا گیا۔ ان کی انتخابی مہم کا منفرد انداز، نرم لہجہ، اور عوامی مقبولیت نے انہیں اپوزیشن کا مرکزی رہنما بنا دیا، اور وہ قدامت پسند ووٹروں کو بھی اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہے۔
مبینہ طور پر، امام اوغلو نے بیلیکدوزو کے میئر کی حیثیت سے کنسٹرکشن کمپنیاں بنا کر ٹھیکے حاصل کیے اور استنبول کے میئر بننے کے بعد سرکاری وسائل کو اپنی ذاتی تشہیر، دہشت گردی کی مبینہ معاونت، اور اپنی جماعت CHP کی صدارتی انتخابی مہم کے لیے استعمال کیا۔ ان پر 560 ارب ترک لیرا (تقریباً 16 ارب ڈالر) کے غیر واضح اخراجات کا بھی الزام ہے، جس کی تحقیقات 2023 سے جاری تھیں۔
18 مارچ کو استنبول یونیورسٹی نے ان کی ڈگری کو جعلی قرار دے دیا، جس کے باعث وہ ترک قانون کے مطابق صدارتی انتخابات کے لیے نااہل ہو گئے۔ اگلے ہی دن پولیس نے ان کے گھر پر چھاپہ مار کر انہیں گرفتار کر لیا۔ اپنی گرفتاری سے قبل امام اوغلو نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ "عوام کی آواز دبائی نہیں جا سکتی" اور وہ جمہوریت و انصاف کے لیے ثابت قدم رہیں گے۔
سیاسی اور معاشی صورتحال
ترکی میں اگلا صدارتی انتخاب 2028 میں متوقع ہے، مگر CHP کی جانب سے امام اوغلو کو امیدوار نامزد کیے جانے کا باضابطہ اعلان 23 مارچ کو ہونا تھا۔ ان کی گرفتاری کے بعد ملک میں کشیدگی بڑھ گئی ہے، حکومت نے چار دن کے لیے عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی ہے، استنبول کے اپوزیشن اکثریتی علاقوں میں میٹرو سروس معطل ہے، اور سوشل میڈیا پر بھی قدغن لگائی گئی ہے۔ اس کے باوجود، CHP کے حامی بلدیہ کے مرکزی دفتر کے باہر احتجاج کر رہے ہیں۔
معاشی حالات پہلے ہی دگرگوں ہیں، ترک لیرا کی قدر گرفتاری کے بعد 36 سے گر کر 38 لیرا فی ڈالر ہو گئی ہے، اور مہنگائی عوام میں حکومت کے خلاف شدید غصہ پیدا کر رہی ہے۔ CHP کی ملک میں حمایت 35 سے 40 فیصد تک ہے، اور اگر عوام بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے تو ترکی کو ایک بڑے سیاسی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایردوان کا چیلنج
صدر ایردوان کو احتجاج ہینڈل کرنے کا وسیع تجربہ ہے، جیسا کہ 2012 میں تقسیم اسکوائر میں ہونے والے تاریخی احتجاج کو انہوں نے کامیابی سے بے اثر کر دیا تھا۔ تاہم، اب حالات بدل چکے ہیں—جو بچہ اس وقت آٹھ سال کا تھا، وہ آج 20 سال کا ہو چکا ہے، اور ملک کی نئی نسل ایک مختلف سیاسی سوچ رکھتی ہے۔ ایسے میں دیکھنا ہوگا کہ اایردوان اپنی غیر مقبولیت، بڑھتی ہوئی مہنگائی، اور مضبوط اپوزیشن کو کیسے قابو میں رکھتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے