جددیت و روایت کی کشمکش کوئی نیا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ کشمکش خلفائے راشدین کے سنہری دور سے چلتی آ رہی ہے، جس کی تاریخی مثال معتزلہ کی عقلی موشگافیوں کی صورت میں آج بھی پڑھی جاسکتی ہے. یہ معاملہ صرف معتزلہ کی تحریک تک محدود نہیں، بلکہ اسلام کی روایت کو ہمیشہ سے اس طرح کی کشمکش سے واسطہ پڑتا رہا ہے.
جدیدیت کی روایت آخر ہے کیا؟ وہ کون سی چیز ہے جو ان دونوں کے درمیان خطہ امتیاز کھینچ دیتی ہے کہ اس دور کو واقعی جدیدیت کی ضرورت ہے؟ کیا روایت فقط اندھی تقلید کا نام ہے؟ کیا تحقیق صرف جدیدیت ہی کے حصے میں آئی ہے؟
ان سب سوالات کا صحیح جواب یہ ہے کہ اسلام کو ہمیشہ روایت ہی نے پروان چڑھایا ہے، اور دفاع اسلام کا گراں قدر کام بھی ان روایتیوں ہی کے حصے میں آیا ہے، اسلام کی حقیقی تصویر انھی نے پیش کی ہے اور کر رہے ہیں۔ اس بات سے کوئی صاحب عقل انکار نہیں کرسکتا کہ اسلام کو ہمیشہ عظیم فتنوں کا سامنا رہا ہے، ایسے فتنے جو بےانتہا معقول اور معیاری معلوم ہوتے تھے، جن کا شکار ہر ظاہر پرست باآسانی ہوتا گیا، لیکن سوال یہ کہ ان تمام فتنوں کا تعاقب جن لوگوں نے کیا، وہ کس طبقے سے تعلق رکھتے تھے؟ آیا وہ جدت پسند تھے یا روایت پسند؟ جواب یہ ہے کہ وہ سب کے سب روایت پسند تھے، جن میں معتزلہ کے مقابل ہمیں امام احمد بن حنبل اور امام ابوحنیفہ رحمھما اللہ جیسے جبال علم و عمل صعوبتیں سہتے، امام غزالی رحمہ اللہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر فلسفہ یونان کا ابطال کرتے، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسے بالغ نظر منطقیوں کی دھجیاں بکھیرتے، مجدد الف ثانی رحمہ اللہ جیسی کامل اور عبقری شخصیت دین الہیٰ کے سامنے سینہ سپر ہوتے، مولانا رومی رحمہ اللہ اپنی مثنوی میں ابطال جدت کرتے ہوئے محافظ روایت، اور علامہ اقبال رحمہ اللہ جیسی جامع شخصیت اپنے کلام میں اسی روایت کو پروتے نظر آتے ہیں۔
کیا ہم اپنی جدت کا ثبوت دے کر ان تمام اکابرین کی راہ سے الگ ہونا چاہتے ہیں؟ اور ’’اگر یہ سب غلط ہوسکتے ہیں‘‘ کہہ کر ہم اسلام کو اتنا بےبس اور کمزور سمجھتے ہیں کہ اسے کسی زمانے کی باگ ڈور ہاتھ نہیں آسکی. حقیقت یہ ہے کہ جدیدیت نے ہمیں ہمیشہ زوال اور نقصان ہی کی راہ دکھلائی ہے، ہمیشہ دین کے اجتماعی ورثہ سے متنفر کرنے کی کوشش کی ہے، اور اس انجام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں روحانیت کے بجائے مادیت، اطاعت کے بجائے آزادی اور معرفت خداوندی کے بجائے نام نہاد ترقی کا درس ہو۔
ماضی میں اس طریقہ واردات کو سمجھ کر بروقت اس کا بھرپور تعاقب کیا جاتا رہا، لیکن اب یہ بدمعاشی سر عام، اور اس منظم انداز سے کی جارہی ہے کہ غیر تو غیر اپنے بھی اس دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پانی سر سے گزر جانے سے قبل اس خطرے سے نمنٹنے کا سامان کیا جائے، غزالی و رومی رحمھما اللہ کی یاد بہار تازہ کی جائے، جو ان سے انھی کے اسلوب میں نمٹ سکے اور دین کی عظیم روایت کے دھارے کو جاری رکھ سکے۔
موجودہ دور میں ماضی کے برعکس جدیدیت کو امریکی ڈکٹیشن کے تحت حکمران طبقے , میڈیا اور زرخرید دانشوروں کے ساتھ ساتھ بعض مذہبی طبقات کی حمائت بھی حاصل ھے , اللہ پر ایمان ,آخرت کی جوابدہی کا احساس اور مغربی معاشروں میں جدیدیت کی تباہ کاریوں کو زیادہ سے زیادہ عام فہم زبان میں اجاگر کر کے ہی اس بدمعاشی کا مقابلہ کیا جا سکتا ھے -
بالکل درست فرمایا آپ نے۔ جزاکم اللہ