ہوم << بھارت میں سیکولرازم محض ایک کھوکھلا نعرہ -سلمان احمد قریشی

بھارت میں سیکولرازم محض ایک کھوکھلا نعرہ -سلمان احمد قریشی

بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شہر ناگپور میں مغل شہنشاہ اورنگزیب کے مقبرے کو گرانے کے لیے کیے گئے مظاہروں کے نتیجے میں ہندو مسلم کشیدگی میں شدت آگئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، شہر میں پرتشدد جھڑپیں ہوئیں، کئی گاڑیاں جلا دی گئیں، اور گھروں پر پتھراؤ کیا گیا، جس سے متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ پولیس نے صورتحال پر قابو پانے کے لیے 20 افراد کو حراست میں لے کر علاقے میں دفعہ 144 نافذ کر دی۔ کانگریس کے رہنما ہرش وردھن نے ان فسادات کا ذمہ دار ریاستی حکومت کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ کئی دنوں سے ریاستی وزرا اشتعال انگیز تقاریر کر رہے تھے، جس کے نتیجے میں یہ ہنگامے پھوٹ پڑے۔

محی الدین محمد، جو اورنگزیب عالمگیر کے نام سے مشہور ہیں، مغلیہ سلطنت کے چھٹے شہنشاہ تھے۔ وہ 1658ء سے 1707ء تک تخت نشین رہے اور ان کے عہد میں مغل سلطنت اپنی جغرافیائی وسعت کی انتہا کو پہنچی۔ ان کے دورِ حکمرانی میں اسلامی قوانین کو نافذ کرنے کے لیے "فتاویٰ عالمگیری" مرتب کی گئی، جو آج بھی اسلامی فقہ کا ایک اہم ماخذ سمجھی جاتی ہے۔ اورنگزیب کو بعض مورخین ایک سخت گیر حکمران تصور کرتے ہیں، جبکہ دیگر انہیں ایک منصف مزاج اور عادل بادشاہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے دور میں مندروں کو نقصان پہنچانے کے الزامات بھی لگائے گئے، لیکن تاریخی شواہد کے مطابق، انہوں نے کئی مندروں کی تعمیر و مرمت بھی کروائی۔ بھارت میں ہندو قوم پرست تنظیمیں اورنگزیب کے نام اور ان کے تاریخی مقامات کو مٹانے پر بضد ہیں۔ چند برس قبل، بی جے پی حکومت نے دہلی کی مشہور "اورنگزیب روڈ" کا نام تبدیل کر دیا تھا، اور اب "اورنگزیب لین" سمیت دیگر مغل شہنشاہوں سے منسوب سڑکوں کے نام بدلنے کے مطالبے کیے جا رہے ہیں۔

حالیہ واقعات کا آغاز اس وقت ہوا جب آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (AIMIM) کے رہنما اکبر الدین اویسی نے اورنگ آباد میں اورنگزیب کے مقبرے پر حاضری دی، جس پر ہندو قوم پرست رہنماؤں نے شدید ردعمل دیا۔ ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اور بی جے پی کے رہنما دیویندر فڈنویس نے اورنگزیب کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے، جبکہ مہاراشٹر نونرمان سینا (MNS) کے ترجمان گجانن کالے نے مقبرے کو منہدم کرنے کی دھمکی دی۔ دیویندر فڈنویس نے کہا: "اویسی، میری بات سنو، اورنگزیب کی شناخت پر کتا بھی پیشاب نہیں کرے گا۔" یہ بیان بھارت میں بڑھتی ہوئی نفرت انگیزی اور تاریخی مسلم حکمرانوں سے شدید تعصب کی عکاسی کرتا ہے۔ ان واقعات کے دوران مراٹھی فلم چھاوا کی ریلیز نے بھی اورنگزیب کے خلاف ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ فلم میں مغل شہنشاہ کو منفی انداز میں پیش کیا گیا، جس پر بھارتی سماج میں رائے تقسیم ہوگئی۔

سماج وادی پارٹی (SP) کے رہنما ابو اعظمی نے اورنگزیب کا دفاع کرتے ہوئے کہا"وہ ایک انصاف پسند بادشاہ تھا، ظالم حکمران نہیں۔ اورنگزیب کے دور میں حکمرانی کی لڑائی تھی، مذہب کی نہیں۔ انہوں نے کئی ہندو مندروں کی بھی تعمیر کروائی تھی۔" یہ بیان بی جے پی اور دیگر ہندو انتہا پسند جماعتوں کو پسند نہیں آیا اور ابو اعظمی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

ہندو قوم پرست جماعتیں بھارت میں مسلم ورثے کو مٹانے کے لیے مسلسل متحرک ہیں۔ تاریخی مقامات اور اسلامی شخصیات کو نشانہ بنانے کے پیچھے دراصل وہی سوچ کارفرما ہے جس نے بابری مسجد کو شہید کیا اور دیگر مسلم آثار کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ یہ رویہ صرف بھارت کے اندرونی معاملات تک محدود نہیں، بلکہ اس کے نتیجے میں خطے میں عدم استحکام اور پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک میں بھارت کے خلاف جذبات مزید شدت اختیار کر رہے ہیں۔ بھارت بطور ریاست اب بھی پاکستان کے وجود کو مکمل طور پر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور عالمی سطح پر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور ایک "سیکولر" ملک کہتا ہے، مگر زمینی حقائق اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ تاریخی مقامات کے نام بدلنے، مساجد کو نشانہ بنانے، اور مسلم حکمرانوں کی توہین جیسے اقدامات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ بھارت میں سیکولر ازم محض ایک کھوکھلا نعرہ بن چکا ہے۔

آج بھی ہندو قوم پرست جماعتیں مذہبی اقلیتوں کے خلاف ایجنڈا چلا رہی ہیں اور حکومتی سرپرستی میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ یہی رویہ دو قومی نظریے کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کا قیام ناگزیر تھا۔ بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی کے خلاف عالمی برادری کی خاموشی تشویشناک ہے۔ خاص طور پر عرب ممالک، جو بھارت کے ساتھ گہرے تجارتی تعلقات رکھتے ہیں، انہیں اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ مسلم حکمرانوں نے برصغیر پر عدل و انصاف کی بنیاد پر حکمرانی کی، مگر موجودہ بھارتی قیادت تاریخ کو مسخ کرنے اور مسلم ثقافتی ورثے کو مٹانے پر تُلی ہوئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اورنگزیب کے مزار کے ساتھ بھی بابری مسجد جیسا سلوک ہوگا؟ یا یہ معاملہ محض بیانات اور احتجاج تک محدود رہے گا؟ بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کو قابو میں رکھنے والا کوئی ہے یا نہیں؟