ہوم << ترقی کےلیے سیالکوٹ چیمبر کے رہنما اصول - ملک محمد فاروق خان

ترقی کےلیے سیالکوٹ چیمبر کے رہنما اصول - ملک محمد فاروق خان

ایئر پورٹ پر انٹرویو لینے والے ذمہ دار موجود تھے. ایک ایک کرکے امیدوار آکر ٹیم کے سامنے پیش ہو کر سوال و جواب کے مرحلے سے گزر رہے تھے. اپنی باری پر ایک شخص ان کے سامنے آکر بیٹھا. اپنے تجربے،علم اور صلاحیتوں کو ان کے سامنے رکھا اور پراجیکٹ کے متعلق پروفیشنل نالج اور تجربے سے اتنا متاثر کیا کہ سوال کم ہوتے گئے اور ٹیم سلیکشن کے مرحلے کے قریب پہنچ گئی۔انٹرویو لینے والے ٹیم میں بھی کمال کی شخصیت موجود تھی، جس کے دماغ میں انٹرویو لینے کے دوران ہی ایئر سیال منصوبے کا عکس ابھرا اور اس کے دل نے یقین دہانی کرادی۔ فضل جیلانی جب دوبارہ چیمبر کا صدر منتخب ہوا تو اس نے تمام عہدیداروں کی میٹنگ میں اپنا مؤقف پیش کیا جنھوں نے اپنے کولیگ کے ویثرن کو سمجھ کر اس پر رضامندی سے اتفاق کیا اور اس کی تکمیل کے لیے کوششیں تیز کر دیں۔ یہ 400ڈائریکٹرز اور 300 شیئر ہولڈرز کا مشترکہ منصوبہ تھا. پانچ لاکھ روپے کی ٹوکن منی سے ایئر لائن شروع کرنے اور فنڈز جمع کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو آٹھ کروڑ جمع ہوگئے. اس کے ساتھ ایک کروڑ میں ڈائریکٹر شپ پر اتفاق ہو گیا۔

لائسنس ملنے پر اس پراجیکٹ میں پہلی غیر متوقع صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، جب 40 جہازوں کی پروڈکشن والی کمپنی 10 جہاز تیار کرنے کی صلاحیت پر آگئی تو جہاز کا حصول بر وقت ممکن نہ ہو سکا، اسی دوران روپے کی قدر میں کمی سے جو 20 لاکھ ڈالرز کے مساوی رقم جمع کی تھی، وہ 14 لاکھ ڈالرز کے قریب رہ گئی۔ایسی مبہم صورتحال میں شیئر ہولڈرز پیچھے ہٹنے لگے۔ کچھ احباب نے پیسے واپس کرنے کا تقاضا شروع کر دیا۔ مزید پیسے دینے میں سرد مہری آنے لگ گئی۔ لائسنس کی مدتِ میعاد ختم ہو نے پر حالات مزید تشویشناک ہونے لگے۔ فضل جیلانی کی راتوں کی نیند اڑ گئی کیوںکہ معاملہ پیسوں کے داؤ پر لگنے سے زیادہ ان پر سرمایہ کاروں کے اعتماد کا تھا۔ بالآخرجنوری 2020 کو دوبارہ لائسنس جاری ہو گیا اور 10 دسمبر 2020 کو ایئر سیال کا افتتاح ہوا۔

36 کلومیٹر سڑک کے لیے تمام ممبران نے خود اپنے اوپر ٹیکس عائد کرکے خطیر رقم اکٹھی کی جس میں حکومتی امداد شامل کرکے شہر کی سڑکیں تعمیر کرائیں۔ سڑکیں، ڈرائی پورٹ، ایئرپورٹ اور ایئرلائن جیسے بڑے منصوبے سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مقامی صنعت کاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت بنائے ہیں۔ اسپورٹس، سرجیکل، لیدر اور دیگر انڈسٹریز سے تعلق رکھنے والے صنعت کار کاروباری مسابقت کے باوجود سماجی منصوبوں کے لیے ایک پیج پر کھڑے رہے۔

ایئر لائن بنانے کے تصور میں بڑا گلیمر ہوتا ہے ،بڑی سرشاری ہوتی ہے لیکن پریکٹیکل میں ہر لمحے نئی اور غیر متوقع صورتحال کا سامنا رہتا ہے،ایسے ایسے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جن کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا، غیر معمولی صلاحیتوں کے علاوہ سب کو ساتھ لیکر حوصلے اور یقین کامل سے کھڑے رہنے سے ہی منزل نصیب ہوتی ہے۔غیر متزلزل یقین کی بھی عجب اور کرشماتی طاقت ہوتی ہے جو دشوار گزار انجانے راستوں کو آسان منزل میں بدل دیتی ہے۔ کامیابی کے یقین میں ہی کامیابی چھپی ہوتی ہے۔ ایئر سیال بھی یقین کامل سے ہی کامیابی کی کہانی بنی ۔
ویسے تو کامیابی کی یہ کہانی بڑی دل انگیز ،متاثر کن اور بے مثال ہے اور اس جیسی کہانیاں تخلیق کرنے والے بے شمار آرزومند تو ہوتے ہیں لیکن بہت ساری کہانیاں حالات کے جبر تلے دب گئیں۔ کچھ کہانیوں کو وسائل کی عدم دستیابی کا خوف نگل گیا۔ کہانی سننا اور بات ہوتی ہے، کہانی تخلیق کرنا اور اسے کامیابی ،حوصلے ،محنت اور خلوص کی ایسی مثال بنا دینا جسے عبور کرنا نا ممکن نظر آئے۔

مسائل اور وسائل کی خلیج ہر پراجیکٹ کو لاحق رہتی ہے،ہر پراجیکٹ کا آغاز ناممکنات کے خوف سے شروع ہوتا ہے، مسائل دراصل کسی فرد،کسی ٹیم یا کسی ادارے کی صلاحیتوں کا ٹیسٹ ہوتا ہے،حوصلے اور ثابت قدم رہنے کا امتحان ہوتا ہے۔ تلہ گنگ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا ہنی مون پیریڈ اختتام پذیر ہو کر ذمہ داری اور جوابدہی کے مرحلے پر پہنچنے کو ہے، جس سے بزنس کمیونٹی کی گرم جوش تجارتی سیاست کا بھی مرحلہ وار آغاز ہو جائے گا ۔بانی تلہ گنگ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے ضلع تلہ گنگ کو صنعتی ،معاشی اور کاروباری ترقی کا پلیٹ فارم تو مہیا کر دیا جس سے علاقائی صنعتی اور کاروباری ترقی کے دیرینہ خوابوں کی تعبیر کا سورج طلوع ہونے کا آرزو مند ہے۔کسی بھی آغاز کے لیے وسائل کی عدم دستیابی بنیادی مئسلہ ہوتا ہے، قوت پرواز کو آتشیں توانائیاں مطلوب ہوتی ہیں۔ تلہ گنگ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سیالکوٹ چیمبر کو رول ماڈل بنا سکتا ہے، چین کے گھریلو صنعتوں کے ماڈل کو اپنا سکتا ہے،چیمبر اپنی ٹیم کی تخلیقی صلاحیتوں سے بھی مستفید ہو سکتا ہے۔ چیمبر ضلع کی صنعتی اور کاروباری ترقی کا یقین ہے۔اس کی قیادت پر بھر پور یقین ہے کہ چیمبر با صلاحیت قیادت کے ہاتھوں میں ہے۔

تلہ گنگ چیمبر کو اگر سیالکوٹ چیمبر کو رول ماڈل کے طور پر لینا ہے تو پھر سیالکوٹ کے صنعت کاروں کی ترقی کے پوشیدہ راز کو جاننا بھی ہوگا اور ماننا بھی ہوگا کہ ترقی کا سارا فلسفہ صنعتکاروں کی یکجہتی میں پوشیدہ ہے۔ اسی یکجہتی سے وہ اپنی خامیاں بھی دور کرتے ہیں۔ سیالکوٹ چیمبر کے میاں نعیم جاوید کہتے ہیں کہ جب غیر ملکی کمپنیوں نے سیالکوٹ کی فٹ بال انڈسٹری میں بچوں کی مزدوری جیسے مسئلے کی نشان دہی کی تو ہم نے اس سے انکار نہیں کیا۔ بلکہ انھیں کہا کہ آپ پیسے دیں، ہم اپنے اسکولوں کو بہتر کر کے ان بچوں کو داخل کراتے ہیں۔ کسی بھی قیادت کا بڑا پن اس وقت سامنے آتا ہے جب کوئی کسی مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے تو وہ اس سے گھبراتے نہیں، بلکہ پہلے اسے تسلیم کرتے ہیں، اور پھر اسے صحیح کرتے ہیں اور اس سے سیکھتے بھی ہیں۔ سیالکوٹ چیمبر نے ہر فٹ بال کی سلائی پر ایک ٹیکس عائد کیا اور بین الاقوامی کمیونٹی کو شریک کیا اور مقامی تاجروں نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا اور آج دنیا بھر میں مانا جاتا ہے کہ سیالکوٹ 'چائلڈ لیبر فری' ہے۔ یہ اعلیٰ مثال ہے قیادت کے ماننے اور اسے صحیح کرنے کی۔ وائس چیئرمین قیصر اقبال بریار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سرجیکل، اسپورٹس اور لیدر جیسی مختلف انڈسٹریز سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے وجود میں آنے کی وجہ بنیں۔ لیکن ان کی پہچان سماجی بھلائی کے کام بنے۔ سیالکوٹ چیمبر کی کامیابی کی کہانی کے دو بنیادی سنہری اصول جسے تلہ گنگ چیمبر کی قیادت اگر اپنا لے تو کامیابی کی کہانی تخلیق ہو سکتی ہے "کاروباری یک جہتی اور مشترکہ مالی وسائل سے صنعتی و سماجی بھلائی کے پراجیکٹس"۔