ہوم << غزوۂ بدر، فلسطین اور امتِ مسلمہ- رابعہ فاطمہ

غزوۂ بدر، فلسطین اور امتِ مسلمہ- رابعہ فاطمہ

تاریخ کے کچھ موڑ ایسے ہوتے ہیں جو محض جنگی معرکوں کی داستان نہیں بلکہ ملتوں کے عروج و زوال کے اصول بیان کر جاتے ہیں۔ یہ وہ لمحات ہوتے ہیں جن میں صرف نیزے، تلواریں اور میدانِ جنگ نہیں ہوتے بلکہ نظریات، عزائم اور قربانی کے وہ اعلیٰ معیار ہوتے ہیں جو صدیوں کی تاریخ کا دھارا موڑ دیتے ہیں۔ غزوۂ بدر اور آج کا فلسطین انہی تاریخ ساز موڑوں میں شامل ہیں۔

بدر کا میدان ایک مختصر جنگ کا مقام نہیں تھا، بلکہ یہ تاریخِ انسانی میں وہ نکتہ تھا جہاں یہ فیصلہ ہونا تھا کہ دنیا میں باطل کے فرعونی نظام کو للکارنے والے آخرکار کامیاب ہوں گے یا نہیں۔ 313 نہتے، مگر ایمان اور یقین کے ہتھیاروں سے لیس مجاہدین نے مادی وسائل سے لیس ایک ہزار کے لشکر کو شکست دی۔ اس معرکے میں تیغ و تلوار سے زیادہ وہ عزم و استقامت کام آیا جو آسمانوں سے مدد لینے کا سلیقہ جانتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے بدر کے میدان میں ایک ایسی قیادت فراہم کی، جس نے امت کو یہ پیغام دیا کہ اگر عقیدہ پختہ ہو، اتحاد مضبوط ہو اور قربانی کا جذبہ موجزن ہو تو وسائل اور تعداد کی کمی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔

بدر کے اسی پیغام کو آج ہم فلسطین کے پس منظر میں دیکھیں تو ہمیں ایک دردناک حقیقت نظر آتی ہے۔ فلسطین میں وہی معرکہ برپا ہے جو بدر میں تھا، لیکن یہاں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ بدر کے مجاہدین اتحاد، اخلاص اور قیادت کی روشنی میں لڑ رہے تھے، جبکہ آج امتِ مسلمہ انتشار، مصلحت پسندی اور کمزوری کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ اہلِ فلسطین بدر کے مجاہدین کی طرح جان و مال کی قربانیاں دے رہے ہیں، وہ اپنے ایمان، اپنی عزیمت اور اپنی استقامت سے ظلم و جبر کے ایک منظم نظام کے خلاف سینہ سپر ہیں، لیکن باقی امتِ مسلمہ ان کے لیے وہ کردار ادا نہیں کر رہی جو بدر کے وقت انصار و مہاجرین نے مل کر ادا کیا تھا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر 313 افراد پر مشتمل جماعت ایک عالمی طاقت کے غرور کو خاک میں ملا سکتی ہے، تو آج کی امت، جو تعداد اور وسائل کے اعتبار سے کہیں زیادہ مستحکم ہے، کیوں بے بس دکھائی دیتی ہے؟ اس کا سیدھا جواب یہی ہے کہ آج ہمیں قیادت کی وہ فراست نصیب نہیں جو میدانِ بدر میں محمد عربی ﷺ کے زیرِ سایہ حاصل تھی۔ ہمیں وہ اجتماعی شعور میسر نہیں جو انصار و مہاجرین کو ایک جسم و جان بنا رہا تھا۔

آج کا فلسطین ہمیں صدیوں پر محیط امتِ مسلمہ کے زوال کا آئینہ دکھا رہا ہے۔ جہاں عالمِ اسلام کے حکمران محض زبانی ہمدردیوں پر اکتفا کر رہے ہیں، جہاں مسلمان ممالک اپنی معیشت، سیاست اور عسکری قوت کو استعمار کے مفادات کا تابع بنائے ہوئے ہیں، وہاں یہ کیسے ممکن ہو کہ فلسطین کا مسئلہ حل ہو جائے؟ بدر نے ہمیں سکھایا تھا کہ کامیابی صرف تلوار کے ذریعے نہیں بلکہ دانش، حکمتِ عملی، اور قربانی کے مشترکہ جذبے کے ساتھ حاصل ہوتی ہے، لیکن آج ہم فلسطین کے مسئلے پر سفارتی، علمی، اقتصادی، اور اجتماعی قوت کے کسی بھی میدان میں ایک واضح مؤقف اختیار کرنے سے قاصر ہیں۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ غزوۂ بدر صرف ایک عسکری کامیابی نہیں تھی، بلکہ یہ ایک فکری اور نظریاتی انقلاب تھا۔ اس معرکے میں یہ اصول طے پایا تھا کہ دنیا میں حق و باطل کی جنگ ہمیشہ جاری رہے گی، اور کامیابی ان کے نصیب میں ہوگی جو ایمان کے ساتھ میدان میں اتریں گے، جو اپنی حکمتِ عملی کو مضبوط کریں گے، اور جو اپنی اجتماعی قوت کو یکجا کریں گے۔

آج فلسطین کا مسئلہ بھی اسی بصیرت، اسی قربانی اور اسی اتحاد کا متقاضی ہے۔ امتِ مسلمہ کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھے کہ اگر بدر کے 313 افراد کامیاب ہو سکتے ہیں، تو ڈیڑھ ارب مسلمان کیوں نہیں؟ آج ہمیں اپنی فکری بیداری کو بحال کرنا ہوگا، ہمیں علمی و سائنسی میدان میں ترقی کرنا ہوگی، ہمیں میڈیا، معیشت، اور سفارت کاری کے محاذوں پر وہ کردار ادا کرنا ہوگا جو دشمن کی چالوں کو ناکام بنا سکے۔

اگر ہم اپنے اسلاف کی راہ پر نہ چلے، اگر ہم بدر کے دروس کو نہ سمجھ سکے، اگر ہم فلسطین کے لیے صرف نعرے اور مذمتی بیانات پر اکتفا کرتے رہے، تو یاد رکھیں کہ تاریخ ہمیں بھی کمزوری، بے عملی اور انتشار کی علامت کے طور پر یاد رکھے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم میدانِ بدر کے اصولوں کو زندہ کریں، اپنے ایمان کو مستحکم کریں، اپنے اتحاد کو مضبوط کریں، اور عملی اقدام کے ذریعے فلسطین سمیت پوری امتِ مسلمہ کے مسائل کا حل تلاش کریں۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے امت دوبارہ اپنے کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کر سکتی ہے، ورنہ ہماری بے عملی ہمیں تاریخ کے حاشیے پر پھینک دے گی۔

Comments

Avatar photo

رابعہ فاطمہ

رابعہ فاطمہ مصنفہ، محققہ، صحافی اور آن لائن تعلیمی پلیٹ فارم ابن الہیثم انسٹی ٹیوٹ کی بانی ہیں۔ کراچی یونیورسٹی سے سوشیالوجی جبکہ اسلامی مشن یونیورسٹی سے شہادۃ العالمیہ کی ڈگری حاصل کی۔ اسلامی تاریخ، اسلامی مالیات، سماجی مسائل، خواتین کے کردار، نفسیات اور جدید تحقیقاتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ مخلتف قومی و بین الاقوامی اخبارات و رسائل میں ان کی تحاریر شائع ہو چکی ہیں۔ پرانا کیلنڈر کے نام سے بچوں کے لیے کہانیوں کا مجموعہ شائع ہو چکا ہے

Click here to post a comment