ہوم << فیمنسٹ اور مسوجنسٹ کی بے بنیاد تقسیم - نادیہ عنبر لودھی

فیمنسٹ اور مسوجنسٹ کی بے بنیاد تقسیم - نادیہ عنبر لودھی

مرد اور خواتین سے مل کر معاشرہ بنتا ہے یعنی کہ دونوں انسان ہیں، لیکن جب ہم فیمنسٹ خواتین کہتے ہیں تو گویا ایک تفریق پیدا کرتے چلے جاتے ہیں کہ خواتین لکھاری اور مرد لکھاری الگ الگ ہیں.لکھاری تو لکھاری ہے، لیکن اگر عورت کا نام کسی نثر پارے یا شعری صنف پر لکھا ہے، تو اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا مرد لکھاریوں کا اولین فرض بن جاتا ہے. جب خواتین نے لکھنے کاآغاز کیا تو مردوں کے فرضی نام اختیار کیے یا پھر فرضی ناموں سے لکھا. ہمارا معاشرہ عورتوں کو لے کر ہمیشہ سے شدت پسند رہا اور مردوں کو لے کر جدت پسند .پھر جب اپنے ناموں سے خواتین نے لکھنا شروع کیا تو بھی معاشرے نے تنقید کا عملی مظاہرہ لازمی سمجھا. فیمنسٹ خواتین معاشرے کی فرسودہ روایات کی چکی میں پسنے والی ایسی مخلوق بنا دی گئی کہ اظہار راۓ کی پاداش میں بدنامی ان کا مقدر بنی. شخصی آزادی کا تصور ہمارے اس معاشرے میں مرد کے لیے ہے. عورت کے لیے غلامی کافی ہے جو وہ تا حیات کرے گی. فیمنسٹ خواتین کے اظہار راۓ پر پابندی لگانے والے حضرات خواتین کو تخلیق کے اس جوہر سے محروم کرنا چاہتے ہیں جو فطرت نے انہیں ودیعت کیا ہے. فیمینزم کی تحریک کا بنیادی مقصد بھی یہ تھا کہ معاشرے میں مساوات کو فروغ دیا جاۓ. ہر جنس دوسری جنس کے برابر ہے ، اس لیے مرد ،عورت ، خواجہ سرا سب کو برابر حقوق ملنے چاہییں، اور ترقی کے یکساں مواقع بھی.

اب اصل سوال یہ ہے کہ عورتیں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کیسے کریں ؟ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یہاں آج بھی عورت کی آزادی کا تصور ناممکن ہے. عورت محض جسم بن کر کب تک کائنات میں رنگ بھرتی رہے گی. اس کے جسم سے آگے اس کا ذہن ، اس کی سوچ بھی ہے. موجودہ دور میں خواتین کے حوالے سے سوچ بدل رہی ہے لیکن پسماندہ علاقوں میں صورت حال ابھی بھی ابتر ہے. نئے وقت اور نئے حالات کے ساتھ چلنے کے لیے پہلے تو الفاظ کا چناؤ تبدیل کرنا ہوگا. لکھاری یعنی رائٹر - فیمنسٹ رائٹر کا لفظ استعمال کرنا تو عورت کا استحصال ہے. مرد عورت دونوں کے لیے لکھاری / رائٹر کا لفظ ہونا چاہیے. طاہرہ کاظمی کی کتاب ''مجھے فیمنسٹ نہ کہو '' تانیثی ڈسکورس کی عمدہ مثال ہے. اس سوچ کی عمدہ عکاس ہے کہ میں انسان ہوں، مجھے انسان رہنے دو ، مجھے خانوں میں مت بانٹو ،میں عورت ہوں، یہ ہی مری شناخت ہے.

مسوجنسٹ مت بنیے !
مرد اور خواتین سے مل کر معاشرہ بنتا ہے یعنی کہ دونوں انسان ہیں. دونوں میں فیمینسٹ اور مسوجنسٹ کی تقسیم ہی بے بنیاد ہے. میں عورت ہوں، یہی مری شناخت ہے. فیمینزم کی تحریک کا مقصد بھی یہی تھا کہ میں عورت ہوں، لہذا مجھے حقوق دیے جائیں. فیمینزم کی تحریک بھی عورت کو حقوق دلوانے کے لیے چلائی گئی تھی، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سب مرد ردی ، ریپسٹ اور مسوجنسٹ ہیں. ایسا بالکل بھی نہیں ہے، بلکہ تحریک کا اصل مقصد یہ تھا کہ خواتین کو ان کے جائز حقوق دیے جائیں، انھیں تعلیم کا حق دیا جاۓ، اور آگے بڑھنے کے یکساں مواقع بھی فراہم کیے جائیں. یہی فیمینزم ہے کہ معاشرے میں مساوات کو فروغ دیا جاۓ.

اسی اور نوے کی دہائی سے پوسٹ ماڈرنسٹ فیمنزم، پوسٹ کالونیل فیمنزم اور ایکو فیمنزم کے رجحانات تیزی سے فروغ پاتے جارہے ہیں. 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن قرار دیا گیا تو اس دن عورت مارچ بھی سوالیہ نشان بن کر رہ گیا. عورتوں کو مارچ کاحق ہے لیکن عورت کی اہمیت کو صنفی پیمانہ سے ماپنا بالکل غلط ہے. اس طرح سے تیسری دنیا کے ملکوں کےلیے فیمنزم خصوصی طور خطرناک رجحان بن کر سامنے آتا ہے۔ استعماری بیانیوں کی وجہ سے عوام میں بھی ردعمل پیدا ہوتا ہے، جو عورتوں کی آزادی کے بلند مقاصد کو نقصان پہنچاتا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک مابعد نو آبادیات کی پھیلائی ہوئی سامراجی زنجیروں میں ایسے جکڑے ہوئے ہیں کہ عورت آج بھی پسماندہ ترین مخلوق ہے، اس کی قربانیوں کی قدر کرنے والے افراد کی تعداد بہت کم ہے. محرومی کا یہ احساس بغاوت کو جنم دیتا ہے.پھر سارا الزام فیمنزم پر آجاتا ہے کہ یہ عورتوں کو مرد دشمنی پر لگا رہا ہے۔ ہمارا دین اسلام عورتوں کو بے شمار حقوق دیتا ہے لیکن معاشرہ عورت کو کچل کر رکھ دیتا ہے. یہی وہ اندرونی بھڑاس ہے جسے نکالنے کے لیے فیمنسٹ نعرہ بلند کیا جاتا ہے. مسوجنسٹ اسے خود پر حملہ تصور کرکے عورت مارچ کا راستہ روکتے ہیں.

ہم کارپوریٹ فیمنزم کے حق میں نہیں ہیں جو عورت کو شمع محفل بنا کر معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ اس کے نازک کندھوں پر رکھ دیتا ہے، لیکن عورت کو خدارا انسان تو سمجھیے. کیا یہ ضروری ہے کہ عورت مرد کی زینت، غیرت، نعمت، عزت وغیرہ کے حوالے سے پہچانی جائے. یہ تو معاشرے کے خود فریبی کے سانچے ہیں. عورت اپنا آزاد وجود رکھتی ہے جیسا کہ کوئی بھی مرد رکھتا ہے۔ عورت کا کسی بھی حوالے سے کردار اور مقام تسلیم کرنے سے پہلے اس کا آزاد اور مکمل وجود تسلیم کرنا ہوگا. آدھی آبادی کو سماج میں تخلیقی عمل سے دور رکھ کرکسی بھی معاشرے میں مثبت نتائج برآمد نہیں کیے جا سکتے. یورپ کی تقلید میں عورت کو رونق بازار نہیں بننا چاہیے البتہ عورت کو ملکیت سمجھنا بھی درست نہیں ہے. عورت چیز نہیں ہے، اسے مرد نے بازار سے نہیں خریدا ہے. اسی طرح جو لوگ شادی کا مطلب آزاد انسانوں کے باہمی تعلق کو نہیں سمجھتے ، بلکہ عورت کو نکاح کے بعد ملکیت یا جنسی کھلونا سمجھ لیتے ہیں، او اس کے ساتھ ہر سلوک کو جائز سمجھتے ہیں تو یہ رویہ بالکل غلط ہے .

خواتین کو ان کے حقوق سے آگاہی دینا بے حد ضروری ہے تاکہ انھیں اپنے حقوق کا علم ہو اور وہ ان کے لیے جدوجہد کرسکیں. خواتین منظم ہو کر حقوق اور مساوات کی تحریکوں کا حصہ بنیں گی تو سماجی سطح پر پائے جانے والے صنفی تضادات اور گھٹن کے خاتمے کے لیے کام کرسکیں گی. بااختیار عورت کے بغیر کسی بھی صحت مند معاشرے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ترقی پسند سماج کے لیے خواتین پر ظلم، جبر اور استحصال جیسے قابل مذمت واقعات اور جنسی استحصال کو جڑ سے مٹانا لازمی ہے . روشن خیالی، جائز آزادی اور مساوات صحت مند معاشرے کے لیے لازم ہیں، ان پر عمل ہوگا تو معاشرہ فیمینسٹ اور مسوجنسٹ جیسے تصورات کی شدت پسندی سے نکل کر اعتدال کی راہ پر گامزن ہوجاۓ گا -