وہ جائے نماز پر بیٹھا گڑگڑا رہا تھا. اس کی نم آنکھوں کے گرد حلقوں نے جگہ بنا رکھی تھی. رات کے اس پہر وہ ادھر کیا کر رہا تھا؟؟ جب ساری دنیا خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی. کیا تھی وہ چیز جس کی طلب اسے اس وقت جگا رہی تھی؟ وہ کیوں تڑپ رہا تھا؟ وہ کتنی دیر صحن میں جائے نماز پر بیٹھے سرخ آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھتا رہا. وہ عجیب سی کیفیات کا شکار تھا.
سیف پچھلی کئی راتوں سے ٹھیک سے سو نہیں پایا تھا. وہ اب ہر بار صرف اس ایک عورت کے لیے دعا کر رہاتھا جو اس کے خیال میں اس کی کل کائنات تھی. سیف اپنی زندگی کے بدلے صرف اس ایک عورت کی زندگی مانگ رہا تھا. وہ شدت سے اس عورت کی صحت یابی کی دعائیں کر رہا تھا، مگر حالات میں کچھ بہتری نہ دیکھتے ہوئے بھی وہ خلاف توقع اور مایوس ہونے کے بجائے مزید وقت جائے نماز پر بیٹھے دعاؤں میں صرف کرنے لگا. وہ عورت اس کی ماں تھی. سیف ان کو تکلیف میں دیکھ کر ٹوٹ کر چکنا چور ہو چکا تھا.
ماں نعمت ہی ایسی ہے، مگر اس بات کا اندازہ اولاد کو دیر سے ہی کیوں ہوتا ہے؟ ہم کیوں ماں کی قدر نہیں کرتے؟ اس کو وقت نہیں دیتے؟ خیال کیوں نہیں رکھتے؟ وہ ہم سے کیا مانگتی ہے، صرف توجہ اور تھوڑا سا وقت، مگر انسان اپنی دولت کو بڑھانے کی ہوس میں اس قدر آگے نکل گیا ہوتا ہے کہ مڑ کر پیچھے کھڑے لوگوں کو دیکھنا اسے گوارا نہیں ہوتا.
بچپن میں انسان کے دل میں ماں کی محبت کا پودا اگتا ہے جو بہت جلد تناور درخت کی شکل اختیار کر لیتا ہے، لیکن پھر انسان کی بڑھتی عمر کے ساتھ اس درخت کے پتے کیوں سوکھنے لگتے ہیں؟ شاید اس وجہ سے کہ بچپن میں ہم محتاج ہوتے ہیں، ہمارا ہر کام ہماری ماں کرتی ہے، اور بڑے ہو کر ہم خود کو اتنا قابل اور سمجھدار سمجھنے لگتے ہیں کہ ہمیں ماں کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی. وہ ماں جس کی ہر دعا ہماری کامیابی سے شروع ہو کر ہماری حفاظت پر ختم ہوتی ہے، ہم اب اکثر اسے اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا بھول جاتے ہیں. کیا ایسے ماں کا حق ادا ہوگا؟ ہمارے لیے سہی جانے والی اذیت کا یہ صلہ ہے؟ کیا وہ اس سب کی حقدار ہے؟
سیف کا دماغ سوالوں سے بھر گیا. وہ صرف ایک بار اپنی ماں کو صحت یاب دیکھنا چاہتا تھا. پھر وہ ان سب لغزشوں کی معافی مانگ لیتا. وہ اپنی ساری زندگی ان کی خدمت میں گزار دیتا. مگر ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے.
"آئی ایم سوری، ہم آپ کی والدہ کو نہیں بچا سکے" پھر ایک دن اس کے کانوں سے یہ الفاظ ٹکرائے.
کیا؟؟ کیا؟ وہ بے یقینی کے عالم میں اپنی جگہ پر ہی جم گیا. اسے لگا جیسے وہ زمین کے اندر دھنس جائے گا. ماں کے جانے کی بعد اس کے پاس کیا تھا؟؟ صرف پچھتاوا. اس کی وہ دولت جو اس نے پردیس جا کر کمائی تھی، کیا وہ دولت اس کی ماں کو بچا سکی؟ کیا وہ اتنے پڑھے لکھے قابل ڈاکٹرز اس کی ماں کو بچا سکے ؟نہیں.. کیونکہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے. وہ صرف پچھتاوے کے قدموں تلے دب کر رہ گیا تھا کیونکہ شاید اس نے کبھی اپنی ماں کے پاؤں تلے جنت کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہی نہیں تھی .
تبصرہ لکھیے