ہوم << ایک عام انسان فتنہ الحاد سے کیسے بچ سکتا ہے؟ - عبدالسلام فیصل

ایک عام انسان فتنہ الحاد سے کیسے بچ سکتا ہے؟ - عبدالسلام فیصل

ایمان کا تعلق سب سے پہلے انسان کے قلب ، اس کی نیت ، پھر زبانی اقرار سے اور اس پر عمل سے ہوتا ہے ۔ انسان نے اللہ کو دیکھا نہیں ۔ اللہ رب العزت کو چھو نہیں سکتا لیکن اس کے باوجود عجائبات کائنات ، مظاہر قدرت، اللہ کی نشانیاں دیکھ کر ورطہ حیرت میں مبتلا ہوتا ہے تو اسے یقین آتا ہے کہ ایسا منظم نظام حیات یا کاروبار زندگی کسی خالق کی تخلیق کے بغیر ممکن نہیں ۔

ایسا خالق جس کے پاس ہر طرح کی قدرت ہو ۔ جو ان تمام صفات سے متصف ہو جو کسی انسان یا اس کائنات میں بسنے والے جاندار کے شعور اور عملی قدرت سے مماثلت نہ رکھتی ہوں ۔ جو ایسا بادشاہ ہو ! جسے کسی کے مطعون کرنے کا غم لاحق نہ ہو ۔ جو اشیاء کو عدم سے وجود بخشنے میں تھکتا نہ ہو ۔ کائنات کو سنبھالنے میں اس سے کسی سستی کا ارتکاب محال ہو ۔ بلکہ ہر قسم کی منفی صفات سے وہ مبرا اور پاک ہو ، ہر دور ہر لمحہ بے نیازی اور تکبر اس کی چادر ہو ۔ جس کے سامنے اس کائنات کے بادشاہ جھکتے ہوں اور وہ ایسا رحیم و مہربان ہو کہ اس نے انسان کو جو زندگی بخشی ہے ساتھ اس کے گزارنے کا طریقہ بھی بتایا ہو ۔

ایک برطانوی مبلغ نے ایک Social Experiment کیا کہ چیٹ جی پی ٹی (آرٹیفیشل انٹیلیجنس ) سے سوال کیا : " اگر تم شیطان ہوتے تو انسان کو خدا سے دور کرنے کے لئے کیا کرتے ؟ تو چیٹ جی پی ٹی نے اس کا وائس میں ایک حیرت انگیز جواب دیا ! کہ میں سب سے پہلے انسان کے دماغ میں یہ وسوسہ ڈالتا کہ

" خدا کا کوئی وجود نہیں ہے ، میں اس انسان کے دماغ میں مذہب کو رد کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ۔ میں اس میں یہ احساس پیدا کرتا کہ نیکی اور بدی کوئی چیز نہیں ۔ گناہ اور ثواب کوئی چیز نہیں ۔ ایک انسان آزاد یعنی لبرل پیدا ہوا ہے ۔ اس کو گناہ و ثواب کی قید سے نکل کر ایسی اخلاقیات کو اپنانا چاہیئے جس پر اس کا نفس اس کو ابھارتا ہے ۔ میں اس انسان کے دل میں ہر طرح کی Divine Guidance یعنی وحی الٰہی (آسمانی کتابوں اور انبیاء کی تعلیمات کے خلاف نفرت پیدا کرتا ۔ میں اس انسان میں مذہبی تعلیمات کے خلاف تشکیک پیدا کرتا ۔ اس کے دل و دماغ میں مذہب کی نافرمانی کا جذبہ پیدا کرتا ۔ اس کے دل و دماغ سے دین یا مذہب کی حتمیت یا نتیجیت ختم کر دیتا ۔ میں اس انسان میں مذہب کی توھین کا جذبہ پیدا کرتا جس سے وہ انسان مذہب اور خدا سے دور ہو جاتا۔"

چیٹ جی پی ٹی آرٹیفیشل انٹیلیجنس نے شیطان کی یہ کہانی بول کر سنا دی جو تقریبا 100 فیصد درست ہے ۔ آج کے جدیدیت کے دور میں سلف صالحین کے منہج کو سمجھنے اور اس کی اشاعت و ترویج کرنے والوں کے لئے یہ عبارت شاید حیرت پر مبنی ہو ۔ لیکن شیطان انسانی دل و دماغ پر جو واردات ڈالتا ہے جس طرح وسوسے ڈالتے ہےاس کی کہانی تقریبا ایسی ہی ہوتی ہے ۔ وہ ایسے ہی ایک عام انسان کو الحاد کی طرف لے جاتا ہے ۔ ہمیں یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رکھنی چاہیئے کہ شیطان ہمیشہ ایسی دنیا کے متعلق سوالات کے ذریعے انسان کو تشکیک میں مبتلا کرتا ہے جس میں ایک عام انسان کی Metaphysical World تک رسائی نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ علوم غیوب پر سوالات سے ہی شیطان انسانی دماغ میں وسوسے ڈالتا ہے ۔

شریعت اسلامیہ نے کچھ اصول وضع کئے ہیں جنہیں سمجھنا بہت ضروری ہے ۔ شیطان انسانی جسم میں خون کی طرح گردش کرتا ہے .

«وعن جابر رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن إبليس يضع عرشه على الماء ، ثم يبعث سراياه، فأدناهم منه منزلة أعظمهم فتنة، يجيء احدهم فيقول: فعلت كذا وكذا فيقول: ما صنعت شيئا قال: ثم يجيء احدهم فيقول ما تركته حتى فرقت بينه وبين امرأته قال فيدنيه منه ويقول نعم أنت»
صحیح مسلم، كتاب صفة القيامة والجنة والنار، رقم: 7106.

”اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ابلیس اپنا عرش پانی پر رکھتا ہے، پھر وہاں سے اپنے لشکروں کو بھیجتا ہے (تا کہ وہ لوگوں کو گمراہ کریں)، اس کے لشکر میں سے اس کے سب سے زیادہ قریب وہ ہوتا ہے جو سب سے بڑا فتنہ برپا کرتا ہے۔ چنانچہ اس کے لشکر میں ایک شیطان آکر کہتا ہے کہ میں نے فلاں فلاں برائی کروائی ہے۔ ابلیس کہتا ہے کہ نہیں ، تو نے کچھ نہیں کیا۔ پھر ایک دوسرا آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اسے اس وقت تک نہیں چھوڑا حتیٰ کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی۔ ابلیس اسے کہتا ہے، تم نے واقعی بڑا کام کیا ہے اور اسے اپنے قریب کر لیتا ہے۔

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ ‎ ﴿٣٦﴾ ‏(43-الزخرف: 36)

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور جو شخص رحمن کی نصیحت سے اندھا بن جائے ہم اس کے لیے ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں، پھر وہ اس کے ساتھ رہنے والا ہوتا ہے۔“

شیطان انسان کی خون کی رگوں میں دھوڑتا ہے اس لئے ہمیں شرعی علوم کو سمجھنے کے لئے قدم قدم پھوٹ پھوٹ کر رکھنا چاہیئے ۔ ایک عالم اور ایک غیر عالم برابر نہیں ہوتے ہمیں سمجھنا چاہیئے کہ شیاطین کی تلبیسات سے بچنے کے لئے ہمیں علماء سے دین سیکھنا چاہیئے ۔ ایمانیات اور ان کی پیچیگیوں پر عبور حاصل کرنا چاہیئے ۔ اور اس پر عملی زندگی میں عمل پیرا ہو کر شیطان کے وساوس سے بچنا چاہییے ۔ کسی بھی مسئلہ میں کسی چیز کا علم نہ ہو تو علماء کرام سے سوال کرنا چاہیئے ۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ ۚ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ اور ہم نے تجھ سے پہلے نہیں بھیجے مگر مرد، جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے۔ سو ذکر والوں سے پوچھ لو، اگر تم شروع سے نہیں جانتے۔(النحل :43)

سوال یہ ہے کہ کس طرح کے علماء کرام سے علم حاصل کیا جائے ؟ قرآن مجید فرقان حمید اس کا بھی جواب دیتا ہے ۔

اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا [الزمر:۲۳ ] ’’اللہ نے سب سے اچھی بات نازل فرمائی، ایسی کتاب جو آپس میں ملتی جلتی ہے۔‘‘

هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ "وہی ہے جس نے تجھ پر یہ کتاب اتاری، جس میں سے کچھ آیات محکم ہیں، وہی کتاب کی اصل ہیں اور کچھ دوسری کئی معنوں میں ملتی جلتی ہیں، پھر جن لوگوں کے دلوں میں تو کجی ہے وہ اس میں سے ان کی پیروی کرتے ہیں جو کئی معنوں میں ملتی جلتی ہیں، فتنے کی تلاش کے لیے اور ان کی اصل مراد کی تلاش کے لیے، حالانکہ ان کی اصل مراد نہیں جانتا مگر اللہ اور جو علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے، سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نصیحت قبول نہیں کرتے مگر جو عقلوں والے ہیں۔(آل عمران : 7 ) "

قرآن مجید فرقان حمید اور صحیح احادیث میں بہت سی ایسی آیات ہیں یا احادیث ہیں جن کو علمائے کرام کے سمجھانے سے سمجھ آتی ہے ۔ قرآنی آیات کی صحیح تفسیر و تاویل اصل میں راسخین فی العلم علماء کرتے ہیں ۔ ایسے علماء جو متقی اور پرہیز گار ہوں اور علوم شریعہ کا صحیح مستند علم رکھتے ہوں سبیل المومنین کو سمجھتے ہوں ۔ اصول تفسیر ،اصول حدیث ، اصول فقہ سے پوری طرح واقف ہوں ۔

مفسر قرآن حافظ عبد السلام بن محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں ۔
وَ مَا يَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ:”الْاَلْبَابِ“ ’’لُبٌّ ‘‘ کی جمع ہے، جس کا معنی خالص عقل ہے۔ (راغب) جس عقل میں خواہش پرستی، بدعت یا شرک کی آمیزش ہو وہ ’’لُبٌّ ‘‘ نہیں کہلاتی۔ مقصد یہ ہے کہ متشابہ کے اصل معنی تک رسائی کی توفیق اہل علم کو بھی ہوتی ہے مگر صرف ان اہل علم کو جن کی عقل ہر قسم کی خواہش پرستی، بدعت اور شرک سے پاک ہوتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے لیے دعا فرمائی: اَللَّهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ وَ عَلِّمْهُ التَّأْوِيْلَ ’’اے اللہ ! اسے دین میں سمجھ عطا فرما اور اسے تاویل کا علم عطا فرما۔‘‘ [مستدرک حاکم:534؍3، ح:۶۲۸۰ مسند أحمد:266؍1، ح ۲۴۰۱، صحیح ] معلوم ہوا تاویل کا علم راسخ فی العلم لوگوں کو بھی ہوتا ہے۔
ایسے لوگوں سے دین لینے سے بچنا جو فسق و فجور میں مبتلا ہوں ۔۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ[/arabic]

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اگر تمھارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کرلو، ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو لاعلمی کی وجہ سے نقصان پہنچا دو، پھر جو تم نے کیا اس پر پشیمان ہوجاؤ۔ (سورہ الحجرات: 6)

ایمان والوں کے لئے ضروری ہے کہ فاسق و فاجر لوگوں سے دین لینے سے پرہیز کریں ۔ اور ملحدین تو اکثر ہوتے ہی فاسق و فاجر ہیں ۔ بعض ایسے ہیں جو فتنہ انکار حدیث میں مبتلا ہیں ۔ بعض دین میں طعن و تشنیع کرتے ہیں ۔ تمسخر اڑاتے ہیں تضحیک کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کا دین پر اعتراض کس صورت قابل اعتبار ہو سکتا ۔؟
جب انسان ایمان لے آئے تو ہر قسم کے شک و شبہ سے بچے ۔

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ مومن تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر انھوں نے شک نہیں کیا اور انھوں نے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ یہی لوگ سچے ہیں۔(الحجرات : 15)

اللہ تعالیٰ کی ذات میں شیطانی وسوسوں پر غور و فکر سے پرہیز کرنا چاہیئے ۔ خالق سے زیادہ اس کی مخلوقات پر غور و فکر سے ہی اللہ کی پہچان اور معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لَا تَفَكَّرُوْا فِي اللهِ وَتَفَكَّرُوا فِي خَلْقِ اللهِ (حلية الأولياء:67/6، وذكر شواهده الألباني في الصحيحة:1788) ’’اللہ تعالیٰ کی ذات میں غور و فکر نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں غور وفکر کرو۔“

ایسے ملحدانہ سوالات جس پر شیطان یہ وسوسہ ڈالے کہ معاذ اللہ اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟ سے پرہیز کرنا چاہیئے ۔ اور شیطان کے وسوسوں سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ طلب کرنی چاہیئے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

يَأْتِي الشَّيْطَانُ أَحَدَكُمْ فَيَقُولُ: مَنْ خَلَقَ كَذَا؟ مَنْ خَلَقَ كَذَا؟ حَتّٰى يَقُولَ: مَنْ خَلَقَ رَبَّكَ فَإِذَا بَلَغَهُ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللهِ وَلْيَنْتَهِ (أَخْرَجَهُ البُخَارِي:3276، ومُسْلِمٌ:134) ’’شیطان تم میں سے کسی ایک کے پاس آتا ہے اور اس سے کہتا ہے: یہ کس نے پیدا کیا؟ وہ کس نے پیدا کیا ؟ حتی کہ سوال کرنے لگتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا ؟ لہٰذا جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے تو اسے اللہ تعالی کی پناہ میں آنا چاہیے اور اس شیطانی خیال کو ترک کر دینا چاہیے۔“

ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے تنبیہ فرمائی ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

لَا يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَاءَلُونَ حَتّٰى يُقَالَ: هٰذَا، خَلَقَ اللهُ الْخَلْقَ، فَمَنْ خَلَقَ اللهَ؟ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذٰلِكَ شَيْئًا، فَلْيَقُلْ آمَنْتُ بِاللهِ (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ: 134) ’’لوگ ہمیشہ ایک دوسرے سے بے فائدہ اور (فضول) سوال کرتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ سوال بھی ہوگا کہ اللہ تعالی نے سب مخلوق کو پیدا کیا ہے تو پھر اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ جس شخص کے دل میں اس قسم کے خیالات پیدا ہوں تو وہ کہے: میں اللہ پر ایمان لایا ہوں۔‘‘

" يوشك الناس يتساءلون بينهم حتى يقول قائلهم: هذا الله خلق الخلق فمن خلق الله عز وجل؟ فإذا قالوا ذلك، فقولوا: (الله احد، الله الصمد، لم يلد، ولم يولد، ولم يكن له كفوا احد) ثم ليتفل احدكم عن يساره ثلاثا، وليستعذ من الشيطان". سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”قریب ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے سوال کرنا شروع کر دیں، (وہ سوال کرتے رہیں)، حتی کہ کہنے والا کہے: مخلوق کو تو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، مگر اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ جب لوگ یہاں تک پہنچ جائیں تو کہنا: «الله أحد، الله الصمد، لم يلد، ولم يولد، ولم يكن له كفوا أحد» ”اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ کسی نے اس کو جنا اور کوئی بھی اس کا ہمسر نہیں۔“ پھر بائیں طرف تین دفعہ تھوکے اور شیطان سے (اللہ تعالیٰ کی پناہ) طلب کرے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه أبو داود: 4732، وابن السني: 621» سلسلہ احادیث صحیحہ : 28 ۔

اسی طرح دلوں میں شیطانی اور ملحدانہ وسوسوں کے آنے پر ہر ایک وسوسے کا اظہار کرنا ضروری نہیں ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کے صحابہ میں سے کچھ لوگ حاضر ہوئے اور انھوں نے آپﷺ سے پوچھا: ہم اپنے دلوں میں ایسی چیزیں محسوس کرتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی انھیں زبان پر لانا بہت سنگین سمجھتا ہے۔ آپ نے پوچھا:

أَوَقَدْ وَجَدْتُمُوهُ؟‘‘کیا تم نے واقعی اپنے دلوں میں ایسا محسوس کیا ہے؟“
انھوں نے عرض کی: جی ہاں۔
آپﷺ نے فرمایا: ذَاكَ صَرِيحُ الْإِيمَانِ (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ: 132) ’’یہی صریح ایمان ہے۔“

اسی طرح قرآن و حدیث میں روح پر جھگڑا کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔

حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا ابي، حدثنا الاعمش، قال: حدثني إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله رضي الله عنه، قال:" بينا انا مع النبي صلى الله عليه وسلم في حرث وهو متكئ على عسيب، إذ مر اليهود، فقال بعضهم لبعض: سلوه عن الروح؟ فقال: ما رايكم إليه؟ وقال بعضهم: لا يستقبلكم بشيء تكرهونه، فقالوا سلوه؟ فسالوه عن الروح، فامسك النبي صلى الله عليه وسلم، فلم يرد عليهم شيئا، فعلمت انه يوحى إليه، فقمت مقامي، فلما نزل الوحي، قال: ويسالونك عن الروح قل الروح من امر ربي وما اوتيتم من العلم إلا قليلا سورة الإسراء آية 85".

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے میرے والد نے، کہا ہم سے اعمش نے، کہا کہ مجھ سے ابراہیم نخعی نے بیان کیا، ان سے علقمہ نے، ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک کھیت میں حاضر تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کھجور کے ایک تنے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ کچھ یہودی اس طرف سے گزرے۔ کسی یہودی نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا کہ ان سے روح کے بارے میں پوچھو۔ ان میں سے کسی نے اس پر کہا ایسا کیوں کرتے ہو؟ دوسرا یہودی بولا۔ کہیں وہ کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں، جو تم کو ناپسند ہو۔ رائے اس پر ٹھہری کہ روح کے بارے میں پوچھنا ہی چاہئے۔ چنانچہ انہوں نے آپ سے اس کے بارے میں سوال کیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے اور ان کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ میں سمجھ گیا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتر رہی ہے۔ اس لیے میں وہیں کھڑا رہا۔ جب وحی ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی «ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إلا قليلا‏» کہ ”اور یہ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیں کہ روح میرے پروردگار کے حکم ہی سے ہے اور تمہیں علم تو تھوڑا ہی دیا گیا ہے۔“ ( صحیح بخاری : حدیث نمبر: 4721)

یعنی جس چیز کا علم نہیں اس پر سوال کرنے سے ہی منع کیا گیا ہے۔ا س بات کا درس دیا گیا کہ شریعت نے انسان کو جتنا علم دیا ہے بس اتنا بیان کرے ۔ نہ اس میں کمی کرے نہ زیادتی کرے ۔ دینی معلومات کو اس ڈر سے بھی بیان کرنا نہیں چھوڑنا چاہیئے کہ فلاں ملحد فلاح کافر اس کا مذاق نہ بنائے ۔ بلکہ اس پر وضاحت دینی چاہیئے کہ جس چیز کا علم ہمیں قرآن و حدیث میں میسر ہے ہم نے وہ سنا ، سمجھا ، بیان کیا ۔ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کو بیان کرنے میں کسی قسم کی ہچکٹاہٹ نہیں ہونی چاہیئے ۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے تقدیر کے معاملات میں بے جا سوالات کرنے اور اس پر بحث و مباحثہ کرنے اور جھگڑا کرنے سے بھی منع فرمایا ہے ۔

حدثنا علي بن محمد ، حدثنا ابو معاوية ، حدثنا داود بن ابي هند ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم على اصحابه، وهم يختصمون في القدر، فكانما يفقا في وجهه حب الرمان من الغضب، فقال:" بهذا امرتم، او لهذا خلقتم تضربون القرآن بعضه ببعض، بهذا هلكت الامم قبلكم"، قال: فقال عبد الله بن عمرو: ما غبطت نفسي بمجلس تخلفت فيه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما غبطت نفسي بذلك المجلس وتخلفي عنه.

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے پاس آئے، وہ لوگ اس وقت تقدیر کے بارے میں بحث کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سخت غصہ کی وجہ سے سرخ ہو گیا، گویا کہ آپ کے چہرے پر انار کے دانے نچوڑ دیئے گئے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے، یا تم اسی لیے پیدا کیے گئے ہو؟ تم قرآن کے بعض حصہ کو بعض حصہ سے ٹکرا رہے ہو، اسی وجہ سے تم سے پہلی امتیں ہلاک ہوئی ہیں“ ۱؎۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا بیان ہے: میں نے کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے غیر حاضر ہونے کی ایسی خواہش اپنے جی میں نہیں کی جیسی اس مجلس سے غیر حاضر رہنے کی خواہش کی۔
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8704، ومصباح الزجاجة: 29)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/196، 178) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

اسی طرح لایعنی چیزوں کو ترک کرنے کا حکم ۔ ایمان کی مضبوطی کے لئے ضروری ہے کہ خود کو لایعنی چیزوں سے پرہیز کروایا جائے ۔

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اور فضول باتوں کو چھوڑ دے“ سنن ترمذی ( حدیث نمبر: 2317)
اسی طرح ملحدین کا ایک بناوٹی نعرہ ہے کہ انسان کو ہر وقت حالت سوال میں رہنا چاہیئے ۔ جبکہ شریعت اسلامیہ ہمیں کثرت سوالات سے بھی منع کرتی ہے ۔
عن ابی ھریرۃ قال :قال رسول اللہ صلےاللہ علیہ وسلم:ذرونی ماترکتم فانما ھلک من کان قبلکم بکثرۃ سوالھم واختلافھم علی انبیائھم ما نھیتکم عنہ فانتھوا وما امرتکم فائتومنہ ما استطعتم۔[مسند احمد۔صحیح بخاری ۔سنن نسائی]

ترجمہ : ابو ھریرہ رض فرماتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ۔تم مجھ کو چھوڑ دو جب تک میں تم کو چھوڑ دوں [جب تک میں تم کو مسئلہ نہ بتائوں تم مجھ سے بیجا سوال مت کرو] یقین جانو تم سے پہلے جو لوگ ہلاک ہوئے ہیں وہ اپنے انبیاء علیہالسلام پہ بیجا کثرت سوال اور اختلاف کی بناء پہ ہوئے ۔جس بات سے میں تم کو منع کردوں اس سے رک جاو اور جس بات کا تم کو حکم دوں اسکو اپنی استطاعت کے مطابق بجا لائو،۔
جبکہ صحیح مسلم ہے کہ ۔

و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ وَرَّادٍ مَوْلَی الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَيْکُمْ عُقُوقَ الْأُمَّهَاتِ وَوَأْدَ الْبَنَاتِ وَمَنْعًا وَهَاتِ وَکَرِهَ لَکُمْ ثَلَاثًا قِيلَ وَقَالَ وَکَثْرَةَ السُّؤَالِ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ اسحاق بن ابراہیم حنظلی، جریر، منصور، شعبی، وراد مولیٰ مغیرہ بن شعبہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ نے ماؤں کی نافرمانی اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا اور باوجود قدرت دوسرے کا حق ادا نہ کرنے اور بغیر حق سوال کرنے کو حرام کیا ہے اور تین باتوں کو تمہارے لئے ناپسند کیا ہے فضول گفتگو سوال کی کثرت اور مال کو ضائع کرنا۔ صحیح مسلم - فیصلوں کا بیان - حدیث نمبر 4483

اسی طرح ملحدانہ وساوس سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ سنی سنائی باتوں سے پرہیز کیا جائے ۔ کیونکہ سنی سنائی باتیں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں ۔ جو بات سنیں اس کی باقاعدہ تحقیق ہونی چاہیئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
« كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع » ... صحيح مسلم5 کہ کسی انسان کے جھوٹا اور ایک روایت کے مطابق گناہگار ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق کے) آگے بیان کر دے۔‘‘
اسی طرح ملحدین کا وطیرہ ہے کہ رسول رحمت جناب محمد رسول اللہ ﷺ پر کثرت سے بہتانات اور اتہامات باندھتے ہیں ۔ ایک تو ان کی نیت معاذ اللہ رسول اللہ ﷺ کی تکذیب ہوتی ہے دوسرا وہ رسول اللہ ﷺ کی توھین کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ کے متعلق وہ اکثر بے سند روایات ان سے منسوب کرتے ہیں اسی لئے ضروری ہے کہ ملحدین جو بھی روایت بیان کریں اس کی مکمل تحقیق کی جائے اور اس کی شروحات کو سمجھا جائے ۔
حدثنا ابو خيثمة زهير بن حرب ، حدثنا هشيم ، عن ابي الزبير ، عن جابر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من كذب علي متعمدا، فليتبوا مقعده من النار".

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے میرے اوپر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لے“۔

[arabic]تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2993، ومصباح الزجاجة)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/303، 83)، سنن الدارمی/المقدمة 25 (237) (صحیح)» ‏‏‏‏

شیاطین کا تو کام ہے کہ وہ لوگوں کو ہر وقت کفر و شرک کی دعوت دیتے رہتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ اس کے حملے سے بچنے کے لئے اللہ کی عبادت کی جائے اور اپنے آپ کو ذکرالٰہی میں مصروف عمل رکھا جائے ۔

قَالَ اللهُ تَعَالَى: أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ‎﴿٦٠﴾‏ وَأَنِ اعْبُدُونِي ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ ‎﴿٦١﴾‏ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنكُمْ جِبِلًّا كَثِيرًا ۖ أَفَلَمْ تَكُونُوا تَعْقِلُونَ ‎﴿٦٢﴾

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”کیا میں نے تمھیں تاکید نہ کی تھی اے اولاد آدم ! کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا، یقیناً وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔ اور یہ کہ میری عبادت کرو، یہ سیدھا راستہ ہے۔ اور بلاشبہ یقیناً اس نے تم میں سے بہت سی مخلوق کو گمراہ کر دیا۔ تو کیا تم نہیں سمجھتے تھے۔“

شیطانی خیالات اور وساوس سے بچنے کے لئے بہترین عمل سورہ بقرہ کی آخری آیات کی تلاوت کرنا ہے ۔

قَالَ اللهُ تَعَالَى: قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ‎﴿١٦﴾‏ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ ۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ ‎﴿١٧﴾(7-الأعراف: 16)

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”وہ بولا: پس اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا، تو میں ان (لوگوں کو گمراہ کرنے) کے لیے تیرے سیدھے راستے پر ضرور بیٹھوں گا۔ پھر میں ان کے سامنے سے اور ان کے پیچھے سے ان کے پاس ضرور آؤں گا، اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے بھی، اور تو ان کی اکثریت کو شکر گزار نہیں پائے گا۔“حدیث 35

«وعن النعمان بن بشير ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إن الله كتب كتابا قبل أن يخلق السموات والأرض بألفي عام، أنزل منه آيتين ختم بهما سورة البقرة، ولا يقرأ ان فى دار ثلاث ليال فيقربها شيطان»
سنن ترمذی ، کتاب فضائل القرآن، رقم: 2882 المشكاة، رقم: 2145۔

محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے ایک کتاب تحریر فرمائی، اس میں سے دو آیتیں نازل فرمائیں جن کے ساتھ سورہ بقرہ کو ختم کیا گیا ہے اور جس گھر میں بھی تین رات ان دونوں آیتوں کی تلاوت کی جائے گی شیطان اس کے قریب بھی نہیں آئے گا۔ “

اگر ان تمام قرآنی احکامات اور احادیث مبارکہ پر عمل کیا جائے تو شیطانی وسوسوں سے بچنے کا اچھا خاصہ انتظام ہو جائے گا۔ عام انسان جو غیر عالم ہے اس کے لئے یہ رہنماء اصول ہیں ۔ کہ وہ دین کے معاملے میں کسی عامی کی رائے ، اعتراض ، تشکیک کو خاطر میں نہ لائے ۔ ایمان کو پختہ رکھے ، لایعنی اور مشکوک چیزوں کو ترک کرے. عقائد کی اصلاح کرے، ایمانیات کو سیکھے ۔ اللہ کی تقدیر پر راضی رہے ۔ تو ان شاء اللہ فتنہ الحاد سے بھرپور مقابلہ کیا جا سکے گا ۔ اللہ رب العزت ہمیں اس شیطانی فتنے سے محفوظ رکھے .آمین.

Comments

Avatar photo

عبدالسلام فیصل

حافظ عبدالسلام فیصل کا تعلق پہلوانوں کے شہر گوجرانوالہ سے ہے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات اور فلسفہ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ہفت روزہ اہلحدیث سے بطور لکھاری وابستہ ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ الحاد پر انھیں گہرا درک حاصل ہے، اس کے خلاف تحریر کے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔

Click here to post a comment