رمضان المبارک کے مہینے میں خدا تعالیٰ اپنی رحمتوں کا نزول بڑھاتا ہے، بندوں کےلیے مغفرت کے راستہ کھلتے ہیں، جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کیے جاتے ہیں، سرکش شیاطین قید کیے جاتے ہیں، مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر شیطان والے اعمال جاری کیوں رہتے ہیں؟ در اصل انسان کو برا کام کرنے کے لیے زیادہ تر شیطان کے سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی ، بلکہ وہ خود اس کا "قائم مقام" بن جاتا ہے ۔
اسلام اور کامن سینس کے مطابق ہر وہ عمل جو معاشرے میں بگاڑ پیدا کررہا ہے ، لوگوں کےلیے حقیقی تکلیف کا سبب بنے ، اس سے لوگوں کے حقوق سلب ہو جاتے ہیں ، خواہ کتنا ہی نیک نیتی سے سر انجام دیا جائے، برا ہی سمجھا جائے گا۔ چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں ۔
نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : یقیناً ایک میاں بیوی ساٹھ سال تک زندگی اللہ کی تابعداری میں گزار لیتے ہیں ، اس کے بعد انھیں موت آجاتی ہے تو وہ ایسی وصیت کر جاتے ہیں جس سے وارثوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، جو دونوں کو جہنم میں داخل کراتی ہے۔ (ترمذی)
یہاں وصیت سے مراد ایسی وصیت ہے جس سے وارث اپنی شرعی حصہ سے محروم ہو جاتا ہے، مثلا باپ اپنی تمام جائیداد اپنے من پسند بیٹے کے نام کرجاتا ہے، جس کے بعد بیٹیاں اور دیگر بچے محروم ہو جاتے ہیں۔ یہ ناجائز ہے۔
امام زیلعی نے لکھا ہے : اگر ایک شخص اپنی ملکیت میں کوئی ایسا کام کرنا چاہتا ہے جس سے دوسرے کو واقعی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے تو ناجائز شمار ہوگا، مثلا گھر میں ایسا تندور بنادینا جو بازاروں ہی میں بنایا جاتا ہو، ( جس سے ہمسایہ کو دھوئیں اور گرمی کا سامنا ہوگا) یا گھر میں آٹے کی چکی نصب کرنا( جس کا شور باعث تکلیف ہو)،یا دھوبی گھاٹ بنانا، یہ سب چیزیں ناجائز ہیں کیونکہ اس سے ہمسائیوں کو ضرر پہنچتا ہے ۔ (التبیین)
آواز کا لیول ڈی بی اے میں ناپا جاتا ہے- انسانی کانوں کےلیے 60 ڈی بی اے تک کی آواز محفوظ ہے- اس سے اوپر کی آواز طبیعت میں اضطراب پیدا کرتی ہے، اور باعثِ تشویش ہے ۔
رب تعالی نے قران مجید میں گدھے کی آواز کو ناگوار قرار دیا کہ وہ 73 ڈی بی اے تک جاتی ہے- 80 ڈی بی اے تک ٹریفک کی آواز جاتی ہے ، 90 ڈی بی اے تک میوزک اور 100 ڈی بی اے تک فل والیم لاؤڈ سپیکر کی آواز جاتی ہے۔ 70 ڈی بی اے یا اس سے اوپر کی آواز کو صوتی آلودگی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور زیادہ دیر تک ایسی آواز کا سننا ڈپریشن کا باعث بنتا ہے- لہذا مذکورہ تمام چیزین انسانوں کے لیے نقصان دہ اور باعث تکلیف ہونے کی وجہ سے ناجائز کے زمرے میں آتے ہیں۔
اب مساجد میں نصب وہ بڑے بڑے سپیکر، جس سے اذان کے علاوہ جمعہ و عیدین کے خطبے وبیانات، رمضان میں رات کے وقت تراویح اور اس سے پہلے اور بعد میں گانوں کے طرز پر ہونے والی نعت خوانیاں، قوالیاں اور قسم قسم کے اعلانات اور گھنٹوں پر محیط دروس ہوتے ہیں، جس نے پورے محلہ کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہو، کہاں جائز ہوگا ؟
اخبار المدینہ میں لکھا ہے کہ خلافت فاروقی میں ایک واعظ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رض کے گھر کے متصل بلند آواز سے وعظ کرتا تھا جس سے سیدہ عائشہ رض کو تکلیف ہوتی تھی، اپ نے عمر رض کو شکایت کی، کہ اس صاحب کی وعظ کے دوران مجھے کسی اور کی آواز سنائی نہیں دیتی، عمر فاروق رض نے اس واعظ کو پیغام بھیج کر وعظ کرنے سے روکا۔ کچھ عرصہ بعد اس نے دوبارہ وعظ شروع کیا تو آپ نے خود جاکر اس کو سزا دی۔ (اخبار مدینہ)
لہذا سپیکر سے صرف اذان دی جاسکتی ہے، دیگر مواقع پر بلا ضرورت اس کا استعمال، جس سے اہل محلہ پریشان ہوتے ہوں، یقیناً مناسب نہیں ہے، اس سے اجتناب لازم ہے۔
تبصرہ لکھیے