رمضان، جسے ہم صبر، تقویٰ اور روحانیت کا مہینہ کہتے ہیں، آج کل اس کی شکل کسی بڑے میگا شو میں بدل چکی ہے۔ یہ مہینہ جو اللہ کی رضا، غریبوں کی مدد اور دلوں کی صفائی کے لیے مخصوص تھا، اب ٹی وی اسکرین پر چمکتے دمکتے سیٹ، جگمگاتے ملبوسات، اور قیمتی انعامات کے درمیان دم توڑ رہا ہے۔ اصل عبادت پیچھے رہ گئی، اور کاروباری مقابلہ بازی آگے نکل گئی ہے۔
ہر چینل نے رمضان کو ایک منافع بخش موقع سمجھ کر اپنی اپنی دکان سجا لی ہے۔ کہیں مہنگے موبائل فونز بانٹے جا رہے ہیں، تو کہیں گاڑیوں اور عمرے کے ٹکٹوں کی بارش ہو رہی ہے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ آپ اسٹیج پر آ کر اچھل کود کریں، مضحکہ خیز سوالوں کے بے تُکے جواب دیں، اور جتنی زیادہ بے عزتی برداشت کریں، اتنا ہی بڑا انعام جیتیں۔ عبادت اور روحانیت کا تقدس بیچ بازار نیلام ہو رہا ہے، اور ہم ناظرین، اس تماشے کو تالیاں بجا کر داد دے رہے ہیں، جیسے یہی رمضان کی اصل روح ہو۔
کبھی رمضان نشریات میں علما اور دینی سکالرز ہوا کرتے تھے، جو قرآن و حدیث کی روشنی میں لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے۔ ان کی گفتگو دلوں کو نرم کرتی تھی، ایمان کو تازہ کرتی تھی، اور رمضان کی اصل روح کو اجاگر کرتی تھی۔ مگر آج کے رمضان میں میزبان ایسے چمکتے دمکتے چہرے ہیں، جو باقی سال فحاشی اور بے حیائی کو فروغ دیتے ہیں اور رمضان آتے ہی "روحانی استاد" بن جاتے ہیں۔ کل تک جو اداکار ڈراموں میں ناجائز محبتوں کو پروان چڑھا رہے تھے، وہی آج ہمیں حیا، پردے اور نیکی کا درس دے رہے ہیں۔ کیا یہ منافقت کی انتہا نہیں؟
یہاں تک کہ دین اور کاروبار کا فرق بھی مٹ چکا ہے۔ ہر رمضان نشریات میں "خصوصی وقفہ" آتا ہے، جس میں میزبان جنت اور بخشش کی خوشخبری دینے کے بعد فوراً کسی کولڈ ڈرنک، چائے، یا کچن آئٹم کا اشتہار پیش کرتا ہے اور کہتا ہے، "روزہ کھولیں تازگی کے ساتھ!" یوں لگتا ہے جیسے دین اور بزنس کا نکاح ہو چکا ہے، اور ہم سب اس شادی میں خوشی خوشی شرکت کر رہے ہیں۔
سب سے زیادہ افسوسناک منظر وہ ہوتا ہے جب صدقہ و خیرات کو بھی تماشا بنا دیا جاتا ہے۔ کسی مجبور ماں کو اسٹیج پر بلایا جاتا ہے، اس کے آنسو براہ راست نشر کیے جاتے ہیں، اور پھر ایک "مہربان اسپانسر" آگے بڑھ کر امداد کا اعلان کرتا ہے — مگر یہ امداد بھی اس شرط پر دی جاتی ہے کہ سب کچھ آن ایئر جانا چاہیے تاکہ نیکی کے ثواب کے ساتھ ساتھ برانڈ کی مشہوری بھی ہو جائے۔ یہ وہی خیرات ہے جسے اللہ کے لیے خفیہ رکھنے کا حکم دیا گیا تھا، مگر ہم نے اسے اپنی شہرت کا ذریعہ بنا دیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس "رمضان انڈسٹری" کا اصل مجرم کون ہے؟ وہ چینلز جو رمضان کو بزنس سیزن سمجھ کر بیچ رہے ہیں؟ وہ اسپانسرز جو دین کو پروڈکٹ بنا کر پیش کر رہے ہیں؟ یا ہم ناظرین، جو یہ سب دیکھنے کے باوجود تالیاں بجا کر ان کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں؟
سچ تو یہ ہے کہ جب تک ہم یہ تماشے دیکھتے رہیں گے، یہ کاروبار پھلتا پھولتا رہے گا۔ جب تک ہم یہ ڈھونگ برداشت کرتے رہیں گے، رمضان عبادت کا مہینہ کم اور ریٹنگز کا بزنس پراجیکٹ زیادہ بنتا جائے گا۔
کیا اللہ کے سامنے ہمارا روزہ قبول ہوگا، جب ہماری افطاری ایسے شو کی دعاؤں سے ہو، جس میں دعاؤں کے ساتھ اسپانسرز کے لوگو بھی چل رہے ہوں؟ کیا ہمیں ایک نیا "روزہ پیکج" خریدنا پڑے گا، جس میں نماز، دعا اور بخشش کے ساتھ "فری گفٹ ہمپر" بھی شامل ہو؟
فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے — ہم یہ سب دیکھتے رہیں گے یا اس دھوکے کو مسترد کر کے اصل رمضان کی طرف پلٹیں گے؟ ہم اس تماشے کے ناظر بنے رہیں گے یا اس بازار سے باہر نکل کر عبادت کی اصل روح کو تلاش کریں گے؟
سوچیے گا ضرور!
تبصرہ لکھیے