ہر سال ۱۵ مارچ کا دن "اسلامو فوبیا کے خلاف" عالمی دن کے طور پر منا یا جا تا ہے۔ ۲۰۱۹میں نیوزی لینڈ کے کرائسٹ چرچ کی دو مساجدپر ایک بندوق بردارنے حملہ کیا تھا ۔ اس حملے میں ۵۱ مسلمان نمازی شہید جبکہ ۴۰ زخمی ہوئے تھے۔ اس ضمن میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسیندا آرڈرن کا کردار قابل تعریف رہا جس طرح انھوں نے ان دلخراش واقعات کے بعد مسلم کمیونٹی کی دلجوئی کی ایسی مثالیں تاریخ میں بہت کم ملتی ہیں ۔اس اندوہناک واقعے کے بعد اقوام متحدہ نے یہ دن متعین کیاتھا۔ پہلی مرتبہ یہ دن ۲۰۲۳ میں منا یا گیا تھا۔
اسلاموفوبیاایک خطرناک مسئلہ ہے جس نے پو ری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے خاص کر مغربی ممالک کے لیے یہ ایک سیکیورٹی چیلنج بن چکا ہے ۔جن ممالک میں یہ شدت سے نظر آتا ہے ان میں امریکہ،کینیڈا، بر طانیہ، فرانس ، جرمنی ، ناروے ، سوئیڈن ، ڈنمارک ، نیدرلینڈ، بیلجیم ،وغیرہ شامل ہیں۔
اس مسئلے کو دو جہتوں میں سمجھا جاسکتا ہے ۔ ایک اصطلاحی لحاظ سے اور دوسرا بطور تصور۔
اگرچہ دنیا نے اسلامو فوبیا کو عالمی امن کے لیے ایک اجتماعی چیلنج کے طور پر مان لیا ہے،لیکن عالمی سطح پراب تک اس کی کوئی متفقہ تعریف بیان نہیں کی گئی ہے۔اقوام متحدہ بھی اب تک متفقہ تعریف پیش کرنےسے قاصر رہاہے، تاہم اس کی مختلف رپورٹوں اور بیانات میں اس مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے۔اس سے قبل ۲۰۱۱میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے عدم برداشت اور مذہبی و نسلی امتیاز کے خلاف اپنی کوششوں میں اسلامو فوبیا کے وجود کوتسلیم بھی کیاتھا۔
کئی تنظیموں اور ماہرین نے اس کی معنی اور مفہوم کی بنیاد پرتعریفیں پیش کی ہیں۔ یہ اصطلاح عام طور پر اسلام اور مسلمانوں سے تعصب، خوف، یا دشمنی کو بیان کرتی ہے۔ بطور اصطلاح اسے اسلام مخالف اور مسلم مخالف اصطلاحوں کےمتبادل کے طورپر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ آل پارٹی پارلیمنٹری گروپ برائے مسلم(برطانیہ) کی تعریف کے مطابق ،" اسلاموفوبیا نسل پرستی کی جڑ ہے اور یہ نسل پرستی کی وہ قسم ہے جو مسلمانوں کی ظاہری شکل یا مسلمانوں کے طور پر سمجھے جانے والے عناصر کو نشانہ بناتی ہے۔"
رنیمائڈ ٹرسٹ، جو کہ برطانیہ میں قائم ایک تحقیقی ادارہ ہے، کے مطابق ،"اسلاموفوبیا کسی بھی قسم کی تفریق، استثنیٰ، یا پابندی ہے جو مسلم شناخت یا مسلم سمجھے جانے والی شناخت کی بنیاد پر کی جائے۔ اس میں دقیانوسی تصورات، امتیاز، اور مسلمانوں کے خلاف دشمنی شامل ہے۔"
یہ تعریفیں مذہبی تعصب اور نسلی پرستی جیسے دونوں پہلو وں کو اجاگر کرتی ہیں۔اس ضمن میں مختلف نقطہ نظر ملتے ہیں جس کو بنانے میں علمی ، سیاسی اورعوامی حلقوں میں ہونے والی بحثوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ بعض اسکالرز کا ماننا ہے کہ اسلاموفوبیا محض مذہبی امتیاز کا نام ہے، جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ یہ نسل پرستی اور ثقافتی تعصب کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔کچھ نقاد یہ بھی کہتے ہیں کہ اس اصطلاح کا غلط استعمال اسلامی عقائد یا مسلم اکثریتی ممالک میں کسی بھی قسم کے مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے حکمران طبقہ کر تا ہے ۔ اس کو سازشی نظریہ بھی کہا جا سکتا ہے ۔تاریخی طور پر سب سے پہلے اس اصطلاح کا استعمال ۱۹۲۵ میں ایک فرانسیسی آرٹیکل میں ہوا تھا۔
یہ ایک اصطلا ح کے ساتھ ایک تصور بھی ہے ۔اسلامو فوبیا کے تصورکے مطابق اسلام بطور عقیدہ، روایات اور تہذیب و ثقافت کے طور پر مغربی تہذیب اور روایات کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے۔ اس کا تعلق مخصوص تاریخی عوامل، مذہبی تنازعات ، سیاسی و ثقافتی اختلافات سے ہے۔بہت سے مورخین اس کی جڑوں کو قرون وسطیٰ کی یورپی تاریخ سے جوڑتے ہیں ۔جن تاریخی عوامل نے اہم کردار ادا کیا ان میں اہم یہ ہیں ۔ پہلا، مسلمانوں اور عیسائی دنیا کے درمیان صلیبی جنگیں (جنہیں مقدس جنگیں بھی کہا جاتا ہے) ، دوسرا عیسائیوں کادوبارہ اسپین فتح کر کے مسلمانوں کا قتل عام کرنا، تیسراسلطنت عثمانیہ کا یورپ تک تسلط ، چوتھا ، یورپی اقوام کا نو آبادیاتی نظام ، پانچواں، پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے اثرات، شامل ہیں ۔ جبکہ حالیہ تاریخ میں یورپ میں مسلم مخالف جذبات کا اظہار چند مخصوص واقعات کے بعد شدت کے ساتھ نظر آئے۔ ان میں میڈرڈ بم دھماکے (۲۰۰۴)، لندن بم دھماکے (۲۰۰۵)، ڈینش اخبار میں پیغمبر محمدﷺکے خاکے شائع ہونا(۲۰۰۵)فرانس میں مسلم خواتین کے حجاب پہننے پر پابندی (۲۰۱۰)، تمبر ۱۱کے واقعات اور اس کے نتیجے میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ اورفرانسیسی متنازعہ میگزین چارلی ہیبڈو میں پیغمبر محمدﷺکے خاکے شائع ہونا(۲۰۲۰) شامل ہیں۔
مغربی دنیا میں اسلام کو عمومی طور پر بنیاد پرستی اور مذہبی انتہا پسندی سےجوڑا جاتا ہے۔۔ غلط فہمیوںکو حقیقت کا رنگ دے کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ منطقی طور پر دیکھا جائے تو کسی کے انفرادی عمل پر پوری قوم کو معطون نہیں کیا جاسکتا۔ انفرادی عمل پر اجتماعی سزا دینا کہاں کا انصاف ہے۔
وقت کے ساتھ مغربی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف اسلاموفوبیا کی بنیاد پر کئی واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں ۔چند اہم یہ ہیں : کرونا وبا کے بعد مسلم اکثریتی ممالک کو ویزا کے لیے سخت جانچ پڑتال سے گزرنا پڑا اور کہیں کہیں ان پر سفری پابندیاں بھی لگائی گئیں۔ ۲۰۲۴ میں فرانس میں مسلمانوں کی مساجد اور املاک پر حملے ہوئےجس کی وجہ سے کشیدگی بڑھی ۔ کچھ ممالک میں قرآن کی بے حرمتی کی گئی ، جیسا کہ حال ہی میں برطانیہ میں واقع ترک ایمبیسی کے سامنے قرآن کو نظر آتش کرنے کا واقعہ سامنا آیا۔
اسلاموفوبیا کے اظہار کے لیے کئی طریقے استعمال ہوتے ہیں ، جن میں زبانی بدکلامی، جسمانی بدسلوکی، جانی حملے، مذہب کی توہین، نسلی منافرت، نفرت انگیز تقاریر، وغیرہ شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ سب سے بڑھتا ہوا خطرہ آن لائن طریقوں سےاسلام اور مسلمانوں کے بارے میں غلط معلومات اور توہین آمیز مواد کی تشیرکرنا ہے۔ آج کی دنیا ڈیجیٹل دنیا ہے ۔ ابلاغ کے جدید طریقوں کے ذریعےاس کی پرچار کی جارہی ہے۔
یہ دن منانے کا مقصد مسلمانوں کے خلاف مذہبی اور نسلی امتیاز کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا اور عالمی سطح پرباہمی محبت ، برداشت اور رواداری کو فروغ دینا ہے ۔ اس عمل کو ایک مسئلہ گردانتے ہوئے اس کے تدارک کے لیےبہت سے ممالک میں قانون سازی بھی کی گئی ہے ، تاہم مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور تعصب نے مغربی دنیا کو جامد کر دیا ہے۔ یہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے اس کو حل کرنے کے لیے بین المذاہب مکالمہ کو تسلسل کے ساتھ فروغ دینا ہوگا ۔
(مصنف وفاقی جامعہ اردو میں تاریخ کے استاد ہیں)
تبصرہ لکھیے