دنیا میں جب بھی کسی قوم یا مذہب کو دبانے کی کوشش کی گئی، تو وہ مزید مضبوط ہو کر ابھرا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی نے حق کی آواز کو دبانے کی کوشش کی، تو وہ آواز ایک گونج بن کر پوری دنیا میں پھیل گئی۔ یہی معاملہ اسلاموفوبیا کا ہے، جس کی جڑیں صدیوں پرانی ہیں، لیکن نائن الیون کے بعد اسے باقاعدہ ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔
مسلمانوں کے خلاف نفرت، پروپیگنڈا، اور انہیں دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے مغربی میڈیا اور سیاستدانوں نے ہر ممکن کوشش کی۔ کبھی یہ کہا گیا کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا، کبھی دہشت گردی کو اسلامی تعلیمات سے جوڑنے کی کوشش کی گئی، اور کبھی آزادی اظہارِ رائے کے نام پر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی گئی۔ اس سارے کھیل میں ایک خاص طبقہ پوری طاقت کے ساتھ سرگرم رہا، جس کا مقصد دنیا میں اسلام کی شبیہ کو مسخ کرنا تھا۔
یہ کھیل برسوں سے جاری تھا، لیکن مسلم دنیا کی قیادت اس پر مؤثر ردعمل دینے میں ناکام رہی۔ کچھ حکمران مغرب کے سامنے بھیگی بلی بنے رہے، تو کچھ صرف رسمی بیانات دینے پر اکتفا کرتے رہے۔ ایسے میں ایک شخص اُٹھا جس نے اسلامی دنیا کے جذبات کو حقیقت میں دنیا کے سامنے رکھا۔ وہ شخص تھا عمران خان۔
اسلاموفوبیا کوئی نئی چیز نہیں۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں صلیبی جنگوں کے دوران بھی یہی رویہ نظر آتا ہے، جب یورپ نے اسلام کے خلاف منظم پروپیگنڈا شروع کیا۔ مغربی دنیا نے ہمیشہ اسلام کو ایک "بیرونی خطرہ" کے طور پر پیش کیا۔ قرونِ وسطیٰ میں جب یورپ میں اسلامی علوم اور تہذیب کا اثر بڑھنے لگا، تو وہاں خوف پیدا ہوا کہ اسلام کہیں یورپ میں نہ پھیل جائے۔ یہی وجہ تھی کہ اسلامی دنیا کو ہمیشہ دشمن کے طور پر پیش کیا گیا۔ نوآبادیاتی دور میں برطانیہ، فرانس، اور دیگر استعماری طاقتوں نے مسلم دنیا کو کمزور کرنے کے لیے اسلام کو "پسماندگی" کی علامت بنا کر پیش کیا۔ نائن الیون کے بعد اسلاموفوبیا ایک باقاعدہ سیاسی اور سفارتی حکمت عملی بن گیا۔ مغربی دنیا نے دہشت گردی کا تعلق براہ راست اسلام سے جوڑ دیا، حالانکہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔
اسلاموفوبیا کی سب سے گھناؤنی شکل ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہے۔ مغرب میں آزادیِ اظہارِ رائے کے نام پر گستاخانہ خاکے، بیہودہ فلمیں اور توہین آمیز کتابیں شائع کی گئیں۔ 2005 میں ڈنمارک کے اخبار "یولاندس پوسٹن" نے گستاخانہ خاکے شائع کیے۔ 2012 میں فرانس میں "چارلی ہیبڈو" نے بار بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی۔ 2020 میں فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے آزادی اظہارِ رائے کے نام پر گستاخانہ خاکوں کی حمایت کی۔ یہ سب واقعات مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے لیے کیے گئے، لیکن مغرب میں کوئی بھی ان کے خلاف کارروائی کرنے کو تیار نہیں تھا۔
ایسے میں عمران خان وہ واحد لیڈر تھے جنہوں نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا۔ انہوں نے نہ صرف اپنے خطابات میں اس مسئلے کو اجاگر کیا بلکہ عملی اقدامات بھی کیے۔ 27 ستمبر 2019 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عمران خان نے اسلاموفوبیا کے خلاف ایک ولولہ انگیز تقریر کی۔ یہ تقریر تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، کیونکہ اس میں پہلی بار کسی عالمی رہنما نے مغرب کے سامنے مدلل اور جرات مندانہ موقف پیش کیا۔ عمران خان نے مغربی دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "ہم مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ جب کوئی ان کی توہین کرتا ہے، تو ہمیں وہی تکلیف ہوتی ہے جیسے کسی ماں کو اس کے بچے کی توہین پر ہوتی ہے۔" یہ جملہ مغربی دنیا کے لیے ایک واضح پیغام تھا کہ مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔
عمران خان نے صرف تقریر نہیں کی، بلکہ عملی طور پر بھی اقدامات کیے۔ اقوام متحدہ میں ایک قرارداد پیش کی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ اسلاموفوبیا کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے۔ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کو متحرک کیا کہ وہ مغربی ممالک پر دباؤ ڈالیں۔ یورپی یونین، امریکہ، اور دیگر عالمی رہنماؤں کو خطوط لکھے جن میں اسلاموفوبیا کے نقصانات اور اس کے عالمی اثرات پر روشنی ڈالی گئی۔ 15 مارچ کو "یوم انسدادِ اسلاموفوبیا" قرار دلوانا سب سے بڑا سنگ میل تھا، جب اقوام متحدہ نے پاکستان کی تجویز پر 15 مارچ کو "عالمی یومِ انسدادِ اسلاموفوبیا" قرار دیا۔
15 مارچ 2019 کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ایک سفید فام دہشت گرد نے دو مساجد پر حملہ کر کے 51 مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ مغربی میڈیا نے اسے دہشت گردی کا واقعہ کہنے سے گریز کیا اور حملہ آور کو "ذہنی مریض" قرار دینے کی کوشش کی۔ عمران خان نے اسی واقعے کو بنیاد بنا کر اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی مہم چلائی۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں اقوام متحدہ نے 15 مارچ کو "عالمی یومِ انسدادِ اسلاموفوبیا" کے طور پر منانے کی منظوری دی۔
دنیا کے بڑے بڑے حکمران عزت کے لیے ہزار جتن کرتے ہیں، مگر جو عزت اللہ دیتا ہے، وہی اصل عزت ہوتی ہے۔ آج مغرب اور مسلم دنیا میں عمران خان کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ انہیں کافر اور لبرل کہہ کر بدنام کرنے کی کوشش کرتے رہے، مگر اللہ نے ان کی کوششوں کو ایسا شرف بخشا کہ آج وہ امتِ مسلمہ کے سب سے مقبول رہنما بن گئے ہیں۔ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اللہ اسے عزتوں سے نواز دیتا ہے۔
عمران خان کی جدوجہد نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں اسلاموفوبیا کے خلاف ایک عالمی آواز بلند ہوئی اور 15 مارچ کو انسدادِ اسلاموفوبیا کا دن منایا جانے لگا۔ یہ ایک عظیم کارنامہ ہے، اور یہ ثابت کرتا ہے کہ جب نیت خالص ہو، اور مقصد صرف دین کی سربلندی ہو، تو اللہ کامیابی ضرور دیتا ہے۔ عمران خان کی یہ کوششیں تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی، اور رہتی دنیا تک ان کے نام کے ساتھ جڑی رہیں گی۔
تبصرہ لکھیے