میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا، جنھیں عام طور پر اے او مٹھاکہا جاتا ہے (پیدائش 1923 وفات1999)ایک عہد ساز جنرل تھے، اور بابائے ایس ایس جی کہلاتے تھے، جو پاکستان آرمی کی ایک آزاد کمانڈو بریگیڈ ہے۔ ایس ایس جی کے لیے ان کی حیثیت وہی تھی جو ڈیوڈ اسٹرلنگ کی برطانوی اسپیشل ایئر سروس کے لیے تھی۔ مٹھا بمبئی (اب ممبئی) کے پوش علاقے مالابار ہلز میں ایک متمول میمن گھرانے میں پیدا ہوئے ، انھوں نے جوانی میں کاروبار میں کیریئر اور اپنے دادا کی طرف سے منتخب کردہ دلہن دونوں کو مسترد کر دیا، اور فوج میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔
ہائی اسکول مکمل کرنے کے بعد، انھوں نے ایک کیڈٹ اکیڈمی میں داخلہ لیا اور برطانوی ہندوستانی فوج میں کمیشن کے لیے منتخب ہوئے۔ وہ 1942 میں انڈین ملٹری اکیڈمی، دہرادون سے پاس آؤٹ ہوئے اور بمبئی گرینیڈیئرز میں کمیشن حاصل کیا۔ بعد ازاں، انھوں نے پیراشوٹ رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی، اور دوسری جنگ عظیم کے دوران میں برما کے محاذ پر خدمات انجام دیں، جہاں انھیں جاپانی فوج کے پیچھے انتہائی خطرناک آپریشنز کے لیے اتارا گیا۔ میجر جنرل مٹھانے اپنی وفات کے بعد شائع ہونے والی کتاب میں برطانوی افسران کی طرف سے اپنے ہندوستانی ساتھیوں کے خلاف روا رکھے گئے کھلے نسلی امتیاز کا ذکر کیا۔ وہ لکھتے ہیں، "اگر کسی میس میں دس افسران ہوتے، جن میں سے دو برطانوی ہوتے، تو وہ اس بات کو یقینی بناتے کہ ان کا ہندوستانی افسران سے کم سے کم واسطہ رہے۔"
جب اگست 1947 میں ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہوا، تو مٹھانے پاکستان کے حق میں فیصلہ کیا۔ وہ اسٹاف کالج کوئٹہ کے لیے کوالیفائی ہوئے اور پاکستان کے جی ایچ کیو میں جی ایس او-1 کے طور پر خدمات انجام دیں۔ مٹھانے پاکستان کے ابتدائی دنوں کے جی ایچ کیو راولپنڈی کی حالت کا تفصیل سے ذکر کیا ہے، جہاں جونیئر افسران لکڑی کے کریٹ کو میز اور کرسی کے طور پر استعمال کرتے اور اپنے پنسل خود لے کر آتے تھے۔ کاغذ کی عدم دستیابی کے باعث بیت الخلاء میں استعمال ہونے والا "بوگ پیپر" بھی لکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
وہ لاہور گورنمنٹ کالج کے پروفیسر گیانیش سی چٹرجی کی بیٹی اندو چٹرجی کے عشق میں گرفتار ہوئے، جو لاہور میں پلی بڑھی تھیں، لیکن تقسیم کے بعد دہلی منتقل ہوگئی تھیں۔ چار سال کی جدوجہد کے بعد، اندو نے اپنے خاندان کی مخالفت کے باوجود کراچی آ کر مٹھاسے شادی کر لی.
1954 میں، مٹھاکو پاکستان آرمی کے لیے ایک ایلیٹ کمانڈو یونٹ تشکیل دینے کے لیے منتخب کیا گیا۔ چراٹ، جو کہ پشاور کے قریب ایک پہاڑی مقام ہے، وہ 6 سال تک ایس ایس جی کے سربراہ رہے۔ مٹھانے اپنے چنیدہ افسران کو صرف ایک ہدایت دی، "اپنی غربت پر فخر کرو". میجر جنرل مٹھا25 مارچ 1971 کی فوجی کارروائی سے قبل مشرقی پاکستان میں سرگرم رہے۔ دیگر جنرلز، جو یحییٰ خان کے ہمراہ ڈھاکہ میں موجود تھے، 25 مارچ کی شام خفیہ طور پر چلے گئے، جبکہ کہا جاتا ہے کہ میجر جنرل مٹھاپیچھے رہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان، میجر جنرل راؤ فرمان علی، اور میجر جنرل خادم حسین راجہ بھی فوجی آپریشن کی منصوبہ بندی میں شامل تھے۔ 1971 میں، جب ذوالفقار علی بھٹو نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر فوجی افسران کو قبل از وقت ریٹائر کرنے کا حکم دیا، تو میجر جنرل مٹھا، جو اس وقت جی ایچ کیو میں کوارٹر ماسٹر جنرل کے طور پر تعینات تھے، بھی اس فہرست میں شامل تھے۔ انھیں محض 48 سال کی عمر میں ریٹائر کر دیا گیا۔ حیران کن طور پر، ان کا نام اس بغاوت میں ملوث افسران کی فہرست میں ڈال دیا گیا جس میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔
مٹھاکے مطابق، گل حسن نے ہی بریگیڈیئر محمد ضیاء الحق کو برطرف ہونے سے بچایا تھا۔ 1971 میں، جنرل یحییٰ خان کو عمان میں موجود پاکستانی فوجی مشن کے سربراہ میجر جنرل نوازش کی طرف سے ایک پیغام ملا، جس میں ضیاء الحق کے خلاف کورٹ مارشل کی سفارش کی گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ضیاء نے جی ایچ کیو کے احکامات کے خلاف جا کر اردن کے ایک بکتر بند ڈویژن کی قیادت کرتے ہوئے فلسطینیوں کے خلاف کارروائیاں کیں، جن میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ یہ واقعہ آپریشن بلیک ستمبر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تاہم، گل حسن کی مداخلت کی وجہ سے ضیاء الحق کو معاف کر دیا گیا۔
اپنے فوجی کیریئر کے دوران، مٹھاکو ہلالِ جرات، ستارہِ پاکستان، اور ستارہِ قائدِاعظم سے نوازا گیا۔ تاہم، ریٹائرمنٹ کے بعد بغیر کسی وجہ کے ان کے تمغے اور پنشن واپس لے لی گئی، جس پر عوام نے حیرانی کا اظہار کیا، کیونکہ انہیں کبھی کورٹ مارشل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس واقعے نے انھیں مزید مقبول بنا دیا، جس کے باعث بھٹو انتظامیہ نے ان پر مسلسل نگرانی رکھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد، انھیں ملازمت تلاش کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر برطانیہ میں موجود ایک دوست نے انھیں اپنے فارم کی دیکھ بھال کے لیے نہ بلایا ہوتا، تو وہ کسمپرسی کا شکار ہو جاتے۔ میجر جنرل اے او مٹھادسمبر 1999 میں انتقال کر گئے۔
تبصرہ لکھیے