ہوم << خیبر پختونخوا کا تعلیمی نظام، ایک تنقیدی جائزہ - ڈاکٹر مسلم خان

خیبر پختونخوا کا تعلیمی نظام، ایک تنقیدی جائزہ - ڈاکٹر مسلم خان

تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی کی بنیاد ہوتی ہے۔ یہ وہ زیور ہے جو انسان کو نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھاتا ہے بلکہ اسے معاشرے کا ایک مفید فرد بھی بناتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا خیبر پختونخوا کا تعلیمی نظام اس زیور کو ہر طالب علم تک پہنچانے میں کامیاب ہو رہا ہے؟ آج ہم خیبر پختونخوا کے تعلیمی نظام کا ایک تنقیدی جائزہ لیں گے۔

خیبر پختونخوا میں تعلیمی نظام کی بات کریں تو سب سے پہلے ہمیں اس کی مثبت کوششوں کو سراہنا چاہیے۔ گزشتہ کچھ سالوں میں صوبائی حکومت نے تعلیم کے شعبے میں کئی اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔ اساتذہ کی تربیت، سکولوں کی تعمیر و مرمت، اور طلباء کو مفت کتابیں فراہم کرنے جیسے اقدامات قابل تعریف ہیں۔ ان کوششوں کی بدولت صوبے کے کئی علاقوں میں شرح خواندگی میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن کیا یہ کوششیں کافی ہیں؟ کیا ہر بچے کو معیاری تعلیم تک رسائی حاصل ہو رہی ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کا تعلیمی نظام ابھی تک کئی چیلنجز کا شکار ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ سکولوں کی کمی اور انفراسٹرکچر کی خرابی ہے۔ دور دراز کے علاقوں میں سکول نہ ہونے کے برابر ہیں، اور جو ہیں وہاں پر بنیادی سہولیات جیسے بیت الخلا، پینے کے صاف پانی، اور فرنیچر کا فقدان ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک بچہ خالی زمین پر بیٹھ کر یا ٹوٹی ہوئی چٹائی پر پڑھ کر اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکے؟

اساتذہ کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کئی سکولوں میں ایک ہی استاد تمام کلاسز پڑھا رہا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے نہ تو وہ خود پوری توجہ دے پاتا ہے اور نہ ہی بچوں کو صحیح تعلیم مل پاتی ہے۔ اس کے علاوہ، اساتذہ کی غیر حاضری اور غیر ذمہ دارانہ رویے بھی تعلیمی معیار کو متاثر کر رہے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ بغیر مستعد اور محنتی اساتذہ کے ہم اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دے سکیں؟

تعلیمی نصاب کی بات کریں تو وہ بھی کئی خامیوں کا شکار ہے۔ موجودہ نصاب طلباء کو رٹا لگانے پر مجبور کرتا ہے، جبکہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں ناکام ہے۔ کیا یہ ضروری نہیں کہ ہمارا نصاب طلباء کو سوچنے، سمجھنے، اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت فراہم کرے؟

خیبر پختونخوا کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں ان مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سکولوں کی تعداد بڑھائیں، انفراسٹرکچر کو بہتر بنائیں، اساتذہ کی تربیت پر توجہ دیں، اور نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالیں۔ اس کے علاوہ، والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم پر توجہ دیں اور انہیں سکول بھیجنے کی اہمیت کو سمجھیں۔

آخر میں، میں یہی کہوں گا کہ تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعے ہم نہ صرف اپنے صوبے بلکہ پورے ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کریں تاکہ وہ مستقبل میں ہمارے صوبے اور ملک کا نام روشن کر سکیں