ہوم << عبقری شاعر متنبی ایک تعارف - محمد محسن یوسف زئی

عبقری شاعر متنبی ایک تعارف - محمد محسن یوسف زئی

عربی زبان کا قادر الکلام، حکیم، فلسفی اور قصیدہ گو شاعر متنبی کا پورا نام "احمد بن حسین بن حسن بن عبد الصمد جعفی کندی کوفی" ہے۔ کوفہ کے کندہ نامی محلے میں 303ھ کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد کوفہ میں لوگوں کے گھروں میں پانی بھرتے تھے۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ سقایہ کایہ بچہ چہار دانگ عالم اپنی پہچان بنائے گا۔ ان کے والد انھیں وہاں سے شام لے آئے جہاں ان کی پرورش ہوئی۔

متنبی کی وجہ تسمیہ:
شام قیام کےدوران "بادیہ سماویہ"نامی علاقے میں متنبی نے نبوت کا دعویٰ کیا، بنو کلب اور دیگر قبائل کے کچھ لوگوں نے ان کی ہاتھ پر بیعت کی اوران کی نبوت کو تسلیم کیا۔ جب اس خبر کی تشہیر ہوئی تو حمص کے گورنر لؤلؤ خود گرفتار کرنے کے لیے نکل پڑا، گرفتار کرکے ایک لمبی مدت کے لیے قید میں رکھا گیا، قید کی گرم سرد دیکھنے، اور مریدین کے منتشر ہونے کے بعد توبہ تائب ہوا، اور رہائی پائی۔ ان کے اشعار میں معافی تلافی کا تذکرہ ملتا ہے۔ بعض وقائع نگاروں کاخیال ہے کہ حاسدین نے انھیں بدنام کرنے اور لوگوں کو ان سے بدظن کرنےکے لیے یہ تہمت لگائی۔ اس سلسلے میں تاریخ میں کئی واقعات مشہور ہیں۔ واللہ اعلم۔

337ھ یعنی 34 سال کی عمر میں وہ امیر حلب سیف الدولہ حمدانی کی دربار سے منسلک ہوئے، جن کی خاندان نے تقریباً سو سال تک حلب، انطاکیہ اور موصل پر حکومت کی۔ سیف الدولہ کی مدح سرائی سے خوب مقام حاصل کیا۔ لیکن ایک ناخوشگوار واقعے کی وجہ سے 346ھ کو سیف الدولہ کو چھوڑ کر وہ مصر چلے گئے۔ مؤرخین کا اس کے واقعے میں اختلاف ہے لیکن مشہور یہ ہےکہ نحو کے امام ابن خالویہ اور متنبی کی دربار میں کسی بات پر بحث ہوئی، ابن خالویہ نے طیش میں آکر متنبی کو چابی دے ماری جس سے ان کا چہرہ زخمی ہوا، سیف الدولہ نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی جس سے متنبی کو بڑا قلق ہوا، اور ان سے اپنا راستہ جدا کیا۔ بعض کا خیال ہے کہ سیف الدولہ کی بہن پر متنبی کا دل آگیا تھا، جن کی وفات پر متنبی نے ایک جاندار مرثیہ بھی کہا ہے۔

استاد کافور کی دربار میں حاضری:
346ھ کو سیف الدولہ کے دربار سے ناراض ہوئے تو حلب کے قریبی علاقہ ان کو مصر کا لگا، جہاں استاذ ابو المسک کافور اَخشیدی حبشی حکمران تھا، ان کے دربار سے وابستہ ہوئے۔ کافور مصر کا دوسال چار ماہ تک حکمران رہا۔متنبی نے جب مصر پر کافور جیسی شخصیت کو براجمان دیکھا تو اپنی ذات سے بھی ان کو امیدیں لگ گئیں، چناں چہ کافور نے ان سے وعدہ کیا کہ کسی علاقے کا گور نربنا دیا جائےگا، لیکن متنبی سے مرعوب ہوا کہ پوری حکومت پر ہی قبضہ نہ کرلے، ایک موقع پر اپنی کابینہ سے کہنے لگا کہ جو آدمی نبوت کا دعویٰ کر سکتا ہے، میرے ساتھ حکومت میں برابری کا دعویٰ کرنا اس کے لیے کون سا مشکل ہے، سو وعدے سے مکر گیا. متنبی نا امید ہوکر وہاں سے بھی 350ھ کو بڑی عید کی رات نکل گیا، کافور نے لوگوں کو پیچھے دوڑایا مگرمتنبی جا چکا تھا۔ اس واقعہ کا تذکرہ بھی بڑی شان وشوکت سے متنبی کے اشعار میں مذکور ہے۔

کافور کی ہجو:
متنبی نے زندگی کے بہترین ایام حلب میں گزارے، سیف الدولہ سے ناراضی کے باوجود ان کے احسانات کا قائل رہا، ان سے علیحدگی کے بعد بھی ان کی ہجو نہیں کی، مگر 351ھ کو کوفہ آتے ہوئے ایک طویل قصیدہ کہا جس میں کافور کی خوب خبرلی. اس رات میں کافور کی غفلت لاپرواہی پر بھی تعریض کی۔

متنبی بلاد فارس میں:
کافور کے دربار سے نکلنے بعد متنبی نے بلادِ فارس کا رخ کیا، امرا کےدرباروں میں رہنے کا چسکا جو پڑ چکا تھا چناںچہ عضد الدولہ بن بویہ سے قربت اختیار کر کے حسب رواج اعزاز واکرام وصول کیے۔

سانحہ قتل اوروفات:
اکیاون سالہ متنبی عضد الدولہ کے ہاں سے واپس آ رہے تھے کہ دریائے دجلہ کے کنارے ضبہ کے ماموں "فاتک بن ابی جہل اسدی" اور ان کے ساتھیوں نے اواخر رمضان المبارک 354ھ کو بیٹے محسد اور غلام مفلح سمیت قتل کیا۔ �

متنبی کے کمالات وخصوصیات:
متنبی اپنے دور کا یکتائے روزگار شاعر تھا، تمام ادبا کا اس پر اتفاق ہے کہ اس دور میں وسعت نظر، بلندی تخیل، ندرت تشبیہ وغیرہ صفات میں ان کا ہم سر اور ثانی نہیں تھا۔ مشہور لغوی ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ میں نے متنبی سے ایک دن کہا "فِعلیٰ" جمع کے کتنے اوزان ہیں؟تو انھوں فی البدیہہ کہا "حجلیٰ" اور "ضربیٰ"، ابو علی کہتے ہیں، میں نے تین دن لغت کی کتابوں کو کھنگالا، خوب مطالعہ کیا کہ کوئی تیسرا وزن ملے مگر تیسرا وزن نہ ملا۔

متنبی کے اشعار عربی فصاحت وبلاغت، حکمت ودانائی، محاورات، استعارات و تشبیب کا اعلیٰ شاہ کار ہیں۔ عرب ادبا کا ماننا ہے کہ عربی زبان میں مہارت کا دروازہ "دیوان متنبی" ہے۔اسے انھوں نے عربی کی عظمت کا استعارہ قرار دیا۔ اس دیوان کی چالیس کے قریب عربی شروحات ہیں۔ معاصر دور میں اردو شروحات کا تو کوئی شمار نہیں۔ فرانسیسی اور لاطینی زبانوں تک اس کے تراجم ہوچکے ہیں۔ ان کے حکمت بھرے جملے جو انھوں نے جابجا اپنے اشعار میں استعمال کیے، ان کی جاودانی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ہزار سال سے زائد عرصے کے بعد بھی ان جملوں کی تابانی، رعنائی، لطافت، جاذبیت، برجستگی، اور وارفتگی میں فرق نہیں آیا۔ جو ان کی عبقریت، بالغ نظری اور آفاقیت کی دلیل ہے۔